Stay Connected

Showing posts with label Amazing. Show all posts

Monday, 20 May 2024

’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘

No comments :

 


حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں میاں نواز شریف کے سوا کوئی تین بار وزیرِ اعظم نہیں بنا۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا وزیرِ اعظم نہیں گزرا جسے دو بار (2000 اور 2019 میں) ایسی سزا ہوئی ہو جس میں ضمانت تو کیا پیرول پر رہائی بھی عام آدمی کے لیے ناممکن ہے۔


مگر دونوں بار میاں صاحب جیل کی سلاخوں کے بیچ میں سے ایسے نکلے جیسے 20ویں صدی کا عظیم شعبدہ باز ہوڈینی ہر بار پانی کے گہرے ٹینک میں زنجیر بکف قید ہونے کے باوجود باہر نکل آتا تھا۔


میاں صاحب کے خلاف جتنے بھی مقدمات بنائے گئے اور ان مقدمات میں جتنی بھی سزائیں اور جرمانے سنائے گئے وہ ان سب سے ایسے بری ہوئے کہ خود بھی ششدر رہ گئے۔


میاں صاحب اتنے خوش قسمت ہیں کہ اس وقت ان کا بدترین سیاسی دشمن سیاست سے نااہل قرار پا کے جیل میں ہے۔ بیسیوں مقدمات اس دشمن سے آکٹوپس کی طرح لپٹے ہوئے ہیں۔

خود میاں صاحب قومی اسمبلی کے ’چنتخب‘ رکن ہیں۔ ان کے برادرِ خورد دوسری بار وزیرِ اعظم مقرر ہوئے ہیں۔ ان کے سمدھی نائب وزیرِ اعظم، وزیرِ خارجہ اور غیر رسمی وزیرِ خزانہ یعنی تھری ان ون ہیں۔


ان کی صاحبزادی سب سے بڑے صوبے کی وزیرِ اعلٰی ہیں اور خود میاں صاحب برسراقتدار جماعت کے سپریم لیڈر ہیں۔


پھر بھی جو مل گیا اس پر خوش، مطمئن اور قانع ہونے کے بجائے وہ پہلے سے زیادہ افسردہ ہیں۔


ان کے اس غم کا مداوا دنیا کی کوئی راحت نہیں کر سکتی کہ ’مجھے تینوں بار کیوں نکالا؟‘، ’میرا قصور کیا تھا؟‘


’مجھے نکالا تو قوم مجھے نکالنے والوں کے خلاف باہر کیوں نہیں نکلی؟‘


’کیا میں نے موٹرویز نہیں بنائے؟ کیا ایٹمی دھماکے نہیں کیے۔ کیا میں نے اقتصادی ترقی کے بڑے بڑے منصوبے شروع نہیں کیے؟ تو پھر کیوں نکالا؟


’ان جرنیلوں اور ججوں کو کب کٹہرے میں کھڑا کیا جاوے گا؟ جنھوں نے مجھے نکالا؟ کیوں نکالا؟ کیوں نکالا؟ آخر کیوں نکالا؟‘


شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا


میاں صاحب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اکثر انسان حال سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے ماضی کی کٹیا میں رہنا پسند کرتے ہیں اور خود پر ترس کھاتے رہتے ہیں۔


رفتہ رفتہ یادداشت بھی منتخب ہو جاتی ہے۔ زندگی میں جہاں جہاں جو جو سمجھوتے کیے یا جس جس کو سیڑھی سے گرایا اور جس جس کو سیڑھی بنا کے اوپر آئے اور جنھوں نے بار بار سیڑھی کھینچی انہی کے طفیل قانونی و سیاسی و انتخابی مشکلات سے بھی نکلے۔


کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ بس ایک ’میں اور مجھے‘ ذہن میں پھانس کی طرح اٹک جاتی ہے اور اس پھانس کی ٹیس کبھی سکون سے نہیں رہنے دیتی۔



آپ کو کسی بھی وزیرِ اعظم کی دو چار قہقہہ بار تصاویر ضرور انٹرنیٹ پر مل جائیں گی۔ میاں صاحب کی کوئی کھلکھلاتی تصویر نکال کے دکھائیں تو جانیں۔ آپ کے لبوں پر کبھی کبھی جو تبسم بھی آتا ہے اس میں بھی بے ساختگی بمشکل جگہ بنا پاتی ہے۔


جب میاں صاحب طاقت کا منبع تھے تب بھی نہ ہی اپنا نامزد کردہ کوئی اچھا سپاہ سالار ملا اور نہ ہی کوئی اچھا جج۔ اور آج جب وہ سیاسی حاشیہ بن چکے ہیں تب بھی وہ 1993، 1999، 2015 اور 2018 میں خمیہ زن ہیں مگر آٹھ فروری 2024 کے یومِ بحالیِ شریف خاندان کا ذکر نہیں کرتے۔


حیدر آباد دکن کے آخری تاجدار میر عثمان علی خان جب کم سن تھے تو ان کے والد میر محبوب علی خان روزانہ ایک طلائی سکہ دیا کرتے تھے۔ایک دن میر محبوب علی خان دربار سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ صاحب زادے پریشانی کے عالم میں باغ میں کچھ تلاش کر رہے ہیں اور پسینے پسینے ہو رہے ہیں۔پتہ چلا کہ ان کا طلائی سکہ کہیں کھو گیا ہے۔ والد نے میر عثمان علی خان کو کہا کہ صاحب زادے آپ کیوں خود کو تھکا رہے ہیں۔ یہ لیجیے نیا سکہ اور اسے سنبھال کے رکھیے۔


سہہ پہر کو قیلولے کے بعد جب میر محبوب علی خان دوبارہ باغ سے گذرے تو دیکھا کہ صاحبزادے وہیں موجود ہیں اور کھویا ہوا سکہ بدستور ڈھونڈ رہے ہیں۔

Wednesday, 14 February 2024

Adani Green Begins Generation From The World's Largest Renewable Energy Park

No comments :



Adani Green Energy Limited (AGEL) has marked a significant milestone by beginning operations at the Khavda Renewable Energy Park (KREP), which is poised to become the world's largest renewable energy park. 

The park, located in the Kutch district of Gujarat, is an ambitious project aiming to generate 30 gigawatts (GW) of electricity from both solar and wind power, with an initial capacity of 551 MW of solar capacity operationalized 25.

The Khavda region is known for its exceptional wind and solar resources, making it an ideal location for large-scale renewable energy development. The energy generated from KREP can power approximately 16.1 million homes each year and is projected to generate 81 billion units of clean electricity annually 12.

AGEL's approach to the development of KREP has been meticulous and innovative. The company conducted comprehensive studies, including geotechnical investigations, seismic studies, centrifuge tests, resource assessment, land studies, Environment and Social Impact Assessment, and detailed feasibility studies. 



To tackle the unique soil strata of the area, AGEL employed underground stone columns to enhance soil strength. The park will feature India's largest onshore wind turbine generator of 5.2 MW capacity, bifacial solar PV modules, and horizontal single-axis tracker systems. Additionally, AGEL is leveraging its advanced Energy Network Operation Centre (ENOC) platform with AI/ML integration for real-time automated monitoring 1.

The project is not only about generating clean energy; it also aligns with the 'Atmanirbhar Bharat' vision by focusing on developing indigenous and resilient supply chains. 

The use of waterless robotic cleaning technology for solar panels addresses dust accumulation in the arid Kutch region, contributing to the United Nations Sustainable Development Goal 6 by conserving water and maximizing electricity generation 1.



The KREP project represents a substantial investment and a testament to AGEL's commitment to India's transition towards a sustainable and clean energy future. By setting a benchmark for giga-scale renewable energy projects, AGEL is paving the way for other similar initiatives globally and fulfilling India's ambitious goal of achieving 500 GW of renewable energy capacity by 2030 and attaining carbon neutrality 12.

The Khavda Renewable Energy Park is a clear demonstration of AGEL's leadership in the renewable energy sector and its dedication to creating a sustainable and green economy. 

As AGEL continues to innovate and expand its renewable energy portfolio, it remains at the forefront of the global shift towards cleaner, more efficient, and environmentally responsible energy solutions. 

Monday, 12 February 2024

محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

No comments :

  جون 712 عیسوی کو محمد بن قاسم نے راجہ ڈاہر کو شکست دے کرسندھ فتح کیا تھا۔



 

کہا جاتا ہے کہ سندھ کے حکمران راجہ ڈاہر کو جب اُموی سالار محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست ہو گئی تو اُن کی دو بیٹیوں سوریا اور پریمل کو محمد بن قاسم نے راجہ کی ہلاکت کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس دارالخلافہ بغداد روانہ کر دیا۔

خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب بڑی بیٹی سوریا سے خلوت کا ارادہ کیا تو سوریا نے چال چلی اور خلیفہ سے کہا کہ محمد بن قاسم پہلے ہی اُن کے ساتھ خلوت اختیار کر چکا ہے چنانچہ وہ اب خلیفہ کے شایانِ شان نہیں رہیں۔

غصے میں خلیفہ کو تحقیق کا ہوش نہیں رہا اور اُنھوں نے اسی وقت محمد بن قاسم کے نام پروانہ جاری کیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں خود کو کچی کھال میں سلوا کر دارالخلافہ کو واپس ہوں۔

محمد بن قاسم نے ایسا ہی کیا اور دارالخلافہ کے راستے میں ہی دو دن بعد اُن کی موت ہو گئی۔

یہ کہانی کتاب فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ میں بیان کی گئی ہے۔

روایت کے مطابق اس کے بعد راجہ ڈاہر کی بیٹی کا ایک طویل خطاب ہے جس میں وہ محمد بن قاسم کی عادل حکمرانی کی گواہی دیتی ہیں مگر اُن کی ہلاکت کی سازش رچنے کو اپنے والد کا بدلہ قرار دیتی ہیں۔

اسی خطاب میں وہ محمد بن قاسم کے بارے میں بھی کہتی ہیں کہ اُنھیں فرمانبرداری میں بھی عقل سے کام لینا چاہیے تھا اور خلیفہ کو بھی کہتی ہیں کہ اُسے بھی سنی سنائی بات پر اتنا سخت حکم جاری کرنے سے قبل تحقیق کر لینی چاہیے تھی۔

چچ نامہ کے مطابق راجہ ڈاہر کی بیٹی نے کہا: دانا بادشاہِ وقت پر واجب ہے کہ جو کچھ بھی دوست یا دشمن سے سنے، اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور دل کے فیصلوں سے اس کا موازنہ کرے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ پاک دامنی کے اعتبار سے محمد بن قاسم ہمارے لیے باپ اور بھائی جیسا تھا اور ہم کنیزوں پر اس نے کوئی دست درازی نہیں کی۔ لیکن چونکہ اُس نے ہند اور سندھ کے بادشاہ (راجہ ڈاہر) کو برباد کیا تھا اس لیے ہم نے انتقاماً خلیفہ کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔

اس پر خلیفہ نے غضبناک ہو کر دونوں بہنوں کو دیوار میں چُن دینے کا حکم دیا۔

بنو اُمیہ کے دور میں سندھ فتح کرنے والے نوجوان سالار محمد بن قاسم اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور کی ’مبینہ‘ کنیز انار کلی کی موت کی کہانیوں میں خواتین کے دیوار میں چُنوائے جانے کی قدر مشترک ہے۔

انار کلی کے بارے میں کہانی یہ منسوب ہے کہ اکبر بادشاہ نے اُنھیں شہزادہ نور الدین محمد سلیم (بعد میں جہانگیر) سے معاشقے کی وجہ سے دیوار میں چُنوا کر ہلاک کروا دیا تھا۔

مگر انارکلی کے وجود کے بارے میں ہی مؤرخین کو شبہ ہے اور اُن کے بارے میں تاریخی ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔ چنانچہ اُن کی موت کی کہانی تو دور کی بات ہے۔

اور محمد بن قاسم اور راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کی ہلاکت سے متعلق اس پوری کہانی پر بھی مؤرخین کو اعتراضات ہیں۔

و پھر محمد بن قاسم کی موت واقعتاً کیسے ہوئی اور مندرجہ بالا واقعے کی تاریخی حقیقت کیا ہے، اس پر بات کریں گے لیکن اس سے پہلے کچھ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد اور فتوحات کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر یہ دیکھیں گے کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی ’مبینہ‘ قبریں بلوچستان میں

اگر آپ کراچی سے گوادر جانا چاہتے ہیں تو آپ پہلے تو آر سی ڈی ہائی وے پر کوئی دو گھنٹے کی ڈرائیو کریں گے جس کے بعد بائیں جانب مکران کوسٹل ہائی وے کا آغاز ہوتا ہے جو اپنے آپ میں حیرتوں سے بھرپور سڑک ہے۔

یہیں پر تھوڑا آگے جا کر بائیں جانب ایک پتھر کی تختی پر لکھا ہے کہ یہاں فاتحِ سندھ محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں موجود ہیں۔

نامور مصنف و محقق سلمان رشید کے مطابق یہ قبریں محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی نہیں ہیں کیونکہ آٹھویں صدی میں عرب سندھ کے چوکنڈی قبرستان جیسی نقش و نگار سے مزیّن قبریں نہیں بنایا کرتے تھے، اور ویسے بھی قبروں کا یہ طرزِ تعمیر تقریباً سولہویں صدی کا قرار دیا جاتا ہے۔

ایک اور تحقیق کے مطابق یہ قبریں اٹھارہویں صدی کے وسط سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کا تذکرہ منان احمد آصف نے اپنی کتاب ’اے بُک آف کونکوئسٹ‘ میں بھی کیا ہے۔

مگر پاکستان میں محمد بن قاسم سے متعلق متنازع باتوں میں سے یہ صرف ایک بات ہے۔

مطالعہ پاکستان کی درسی کتب میں اکثر و بیشتر یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد اُسی دن پڑ گئی تھی جس دن محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔

محمد بن قاسم اُموی دورِ حکومت کے وہ سالار تھے جنھوں نے 712 سنِ عیسوی میں سندھ پر حملہ کیا اور یہاں کے راجہ ڈاہر کو شکست دی۔

بعض مؤرخین کے نزدیک محمد بن قاسم کے آنے سے جنوبی ایشیا میں اسلامی دور کا آغاز ہوا، سندھ فتح ہوا اور یوں واقعات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔

مگر مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق پیغمبرِ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب تاجر برِصغیر میں رہائش پذیر تھے اور کچھ کے نزدیک یہاں کی مقامی خواتین سے شادیاں تک کر رہے تھے۔

کتاب ’دی گریٹ مغلز اینڈ دیئر انڈیا‘ میں مصنف ڈرک کولیئر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ انڈیا کے جنوب مغرب میں مالابار کے ساحلی علاقے (موجودہ کرناٹک اور کیرالہ) میں عرب تاجر یہاں پہلے سے مقیم تھے اور جب خطہ عرب میں اسلام آیا تو ممکنہ طور پر ان عربوں نے بھی اسلام قبول کیا ہو گا۔

اپنی کتاب کے ابتدائیے میں اُنھوں نے خطہ برِصغیر میں اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے متعدد نظریات کا ذکر کیا ہے جس میں ہجرت، تلوار، خوف، صوفیا کے عمل اور تبلیغ، سماجی رتبے کے حصول اور پرامن روابط مثلاً تجارت اور باہمی شادیاں شامل ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے (چند) واقعات کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا، تاہم کئی دیگر علاقوں مثلاً مالابار کے ساحلوں میں اسلام کی کامیابی کا تعلق جبر یا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی برتری سے نہیں تھا۔

اس کے علاوہ اُن کے نزدیک نئے مذہب کے مضبوط اور مساوات پر مبنی پیغام کا اثر بالخصوص نچلی ذات کے افراد پر ضرور ہوا ہو گا۔

چنانچہ وہ اس علاقے میں پہلے سے عربوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد سے کہیں قبل برِصغیر میں اسلام کی آمد کا عرصہ متعین کرتے ہیں۔

لہٰذا پاکستان کی درسی کُتب میں عام طور پر پڑھائے جانے والے بیانیے کے برعکس تاریخی بیانیے بھی موجود ہیں۔

کتاب فُتوح البلدان نوویں صدی عیسوی میں عباسی دورِ حکومت میں تحریر کی گئی اور اسے اسلامی فتوحات کی تاریخ کی اہم ترین اور مستند کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اس کتاب میں مصنف احمد بن یحییٰ البلاذری نے محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بعد کے واقعات خصوصی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے بہت سے مفتوحہ علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلے، واپس فتح ہوئے، کسی نے واپس اپنا پچھلا مذہب اختیار کر لیا تو کسی نے مسلمانوں سے اپنا معاہدہ توڑ لیا۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد بن قاسم سے پہلے کوئی مسلمان مہم سندھ میں آئی تھی یا نہیں۔

بلاذری کے مطابق خلیفہ دوم عمر بن الخطاب کے دور میں 15 ہجری میں اُنھوں نے عثمان بن ابوالعاص الثقفی کو بحرین اور عمان پر گورنر مقرر کیا، تو عثمان نے ایک فوج تھانہ (یا تانہ) کی جانب بھیجی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ عثمان کے بھائی الحکم نے اپنے بھائی المغیرہ ابن ابوالعاصی کو خلیجِ دیبل کی جانب بھیجا جہاں اُنھوں نے دشمن پر فتح پائی۔

فتوح البلدان کا اردو ترجمہ سید ابوالخیر مودودی نے کیا ہے جس میں اُنھوں نے دیبل کو تو دریائے سندھ کے قریب واقع ایک بڑا تجارتی شہر قرار دیا ہے مگر تھانہ کا تذکرہ نہیں کیا کہ یہ کون سا شہر ہے۔

اس کا تذکرہ ہمیں ابنِ بطوطہ کے سفرنامے میں ملتا ہے جب اُنھوں نے یمن کی بندرگاہِ عدن کے بارے میں بتایا ہے کہ یہاں انڈیا کے کئی شہروں بشمول ’تھانہ‘ سے بھی جہاز آتے ہیں۔

چنانچہ یہ شہر ’تانہ‘ انڈین ریاست مہاراشٹر کا شہر تھانے یا تھانہ ہے جو ممبئی کا پڑوسی شہر ہے اور یہاں تک وسائی کھاڑی (ندی) کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے جو اس شہر کو ساحل سے کافی دور ہونے کے باوجود بحیرہ عرب سے ملا دیتی ہے۔

خطہ سندھ اور بلوچستان میں اوّلین اسلامی مہمات

موجودہ پاکستان کے دیگر خطوں میں محمد بن قاسم سے پہلے مسلمانوں کی آمد کے بارے میں ایک اور روایت فتوح البلدان سے ہی ملتی ہے جس کے مطابق سنہ 38 یا سنہ 39 ہجری میں حضرت علی کے دور میں اور پھر سنہ 44 ہجری میں امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں قیقان (موجودہ قلات) اور بنہ (موجودہ بنوں) پر حملے کیے گئے۔

اگر محمد بن قاسم کی سندھ پر لشکر کشی پہلی فوجی مہم نہیں تھی اور اس سے قبل بھی اس علاقے پر حملے کیے جاتے رہے تھے تو پھر اس واقعے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جس کے مطابق عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کو سندھ کی جانب بھیجا؟

یہ کہانی بھی چچ نامہ میں کافی تفصیل سے موجود ہے۔

چچ نامہ یا فتح نامہ سندھ، خطہ سندھ کی فتح پر لکھی گئی پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل مؤرخین نے سندھ اور ہند کی فتح پر باب تو باندھے ہیں لیکن مکمل کتابی صورت میں صرف چچ نامہ ہی ملتی ہے۔

چچ نامہ تیرہویں صدی میں علی کوفی کی فارسی میں ترجمہ کردہ کتاب ہے جو اُن کے مطابق اُنھوں نے ایک عربی کتاب سے فارسی میں منتقل کی، تاہم وہ عربی کتاب اب تک باقاعدہ دریافت نہیں ہو سکی ہے نہ ہی اس حوالے سے معلومات ہیں کہ وہ کس کی تصنیف تھی۔

تاہم اس کتاب میں موجود روایات اور تاریخی حوالوں کو محققین پرکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

چچ نامہ میں بیان کیے گئے دیگر واقعات کے برعکس مسلمان قیدیوں کے بارے میں تحریر اس واقعے کی شروعات میں اس کی سند موجود نہیں ہے۔

مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی اور محقق و مصنف منان احمد آصف کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ درست نہیں ہے۔

اس کے علاوہ تاریخ ابنِ خلدون میں بھی دیبل کی فتح کے باب میں اس واقعے کا تذکرہ نہیں ہے۔

مذکورہ واقعے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ حجاج کے گورنر محمد بن ہارون بن ذراع النمری کے دور میں پیش آیا تاہم بلاذری اور چچ نامہ، دونوں ہی نے وہ سال نہیں لکھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔

محمد بن ہارون النمری کا تقرر چچ نامہ کے مطابق سنہ 86 ہجری میں ہوا اور محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ 93 ہجری یا 712 عیسوی میں ہوا۔ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو کس سال میں ہوا اور یہ کہ اس واقعے کے کتنے عرصے بعد محمد بن قاسم نے سندھ پر لشکر کشی کی۔

اس کے علاوہ اگر حضرت عمر کے دور سے لے کر ولید بن عبدالملک کے دور تک کا جائزہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سندھ پر محمد بن قاسم کی لشکر کشی کئی دہائیوں طویل سلسلے میں تازہ ترین کوشش تھی جس میں اُنھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔

پھر تاریخ کی کتب میں یہ بھی تذکرہ ہے کہ اس وقت علافی یا علوی گروہ کے کئی لوگ مکران میں آ بسے تھے۔ اُن میں سے ایک کو حجاج کے عملدار سعید بن اسلم کلابی نے قتل کیا تھا، چنانچہ بدلے میں علافیوں نے بھی سعید بن اسلم کو قتل کر دیا، جس پر حجاج بن یوسف نے علافیوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تھا۔

جب خلافتِ اُموی کی طرف سے مکران میں بسے ان علافیوں کے خلاف بار بار مہمات کی گئیں تو یہ لوگ سندھ میں راجہ ڈاہر کے پاس چلے گئے چنانچہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ خود حجاج بن یوسف کے دور میں مکران اور سندھ کی طرف بنو اُمیہ کے مخالفین موجود تھے۔

اس کے علاوہ سندھ کی فتح کی اس مہم پر بلاذری کے مطابق چھ کروڑ درہم خرچ ہوئے اور اس کے بدلے میں 12 کروڑ درہم کا مالِ غنیمت حاصل ہوا۔

چنانچہ منان احمد آصف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’جب السند (سندھ) پر حملہ ہوا تو اس کا تعلق بنو امیہ کی شاخِ مروان کے مالیاتی اُمور یا باغیوں کے خلاف سرحدی خطے پر قبضے سے تھا، نہ کہ قزاقوں کی کسی رومانوی داستان سے۔‘

محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بارے میں مشہور افسانہ

چچ نامہ میں کہا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی ہلاکت راجہ ڈاہر کی دو بیٹیوں کی سازش کی وجہ سے ہوئی مگر اس حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کا دعویٰ ہے کہ یہ کہانی من گھڑت اور افسانوی ہے۔

سندھ کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان (این اے) بلوچ نے چچ نامہ کی صحت اور اس میں موجود تاریخی حوالوں کے بارے میں جرح کی ہے۔

ڈاکٹر این اے بلوچ کا چچ نامہ پر تحریر کیا گیا مقدمہ بھی اپنے آپ میں ایک پوری کتاب ہے جس میں اُنھوں نے محمد بن قاسم کی ہلاکت اور پھر راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کے بغداد کی کسی دیوار میں چُن دیے جانے کی کہانی کو کہانی ہی قرار دیا ہے، حقیقت نہیں۔

سب سے پہلے تو اس کہانی کے مطابق خلیفہ نے محمد بن قاسم کو دارالخلافہ بغداد بلوایا۔ حالانکہ اُس زمانے میں بغداد کا وجود نہیں تھا، بلکہ دارالخلافہ دمشق تھا۔

اس کے بعد اس میں لکھا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی موت خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر ہوئی تاہم بلاذری اور دیگر مؤرخین کے مطابق یہ واقعہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں پیش آیا۔

بلاذری کے مطابق ولید بن عبدالملک کی موت کے بعد سلیمان بن عبدالملک حکمران ہوئے تو اُنھوں نے صالح بن عبدالرحمان کو عراق کا والی اور یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا عملدار مقرر کیا۔

یزید نے محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے صالح کے پاس عراق بھیج دیا جہاں اُنھیں حجاج بن یوسف کے سابقہ انتظامی ہیڈکوارٹر واسط کے ایک عقوبت خانے میں قید کر کے ایذا رسانیاں کی گئیں اور وہ ہلاک ہو گئے۔

اسی بیان کی تصدیق تاریخ ابنِ خُلدون سے بھی ہوتی ہے۔

فُتوح البلدان میں لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم قید میں تھے تو اُنھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر یہ اشعار کہے:

ہر چند کہ میں واسط میں بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہوں

مگر کبھی میں نے ایران کے کتنے ہی شہ سوار زیر کیے

اور اپنے جیسے کتنے ہی پہلوانوں کو پچھاڑا ہے

ایک اور شعر جو محمد بن قاسم سے منسوب کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:

اُنھوں نے مجھے ضائع کر دیا، جوان بھی ایسا کہ مردِ نبرد اور سرحد کا محافظ تھا۔

چنانچہ محمد بن قاسم کی معزولی اور ہلاکت سے اُس دور میں ہونے والی سیاسی سازشیں اور آپسی دشمنیاں بھرپور انداز میں عیاں ہو جاتی ہیں۔

Sunday, 28 January 2024

The 8 Largest Cities in the World: A Comparative Overview

No comments :


Introduction: The significance of the world's largest cities

The world's largest cities hold a unique appeal, attracting people from all walks of life with their vibrant energy, cultural diversity, and unparalleled opportunities. These urban giants serve as microcosms of human civilization, showcasing the triumphs and challenges of rapid urbanization. In this article, we will delve into the comparative overview of the ten largest cities in the world, exploring their historical backgrounds, urban landscapes, socioeconomic dynamics, and the remarkable ways in which they shape our global society. By examining megacities like Tokyo, Delhi, Shanghai, Sao Paulo, Mexico City, and New York City, we hope to gain a deeper understanding of the complex interplay between urbanization, culture, and the human experience on a grand scale.

The World's Largest Cities: A Comparative Look.

Ah, the allure of big cities. The bright lights, towering skyscrapers, and endless hustle and bustle. There's something about these urban giants that captivates our imaginations and draws us in. But have you ever wondered which cities are the largest in the world? Size matters, after all. In this article, we'll take a comparative look at the ten largest cities on our planet and delve into what makes them so special. From the mind-boggling population numbers to the unique challenges they face, get ready to explore the fascinating world of mega-metropolises.

Methodology: Criteria for determining the largest cities

Before we dive into the specifics, let's clarify how we determine the size of a city. It's not just a matter of counting buildings or measuring the area it covers (although that would make for an interesting sitcom episode). Instead, we consider the total population within a city's administrative boundaries. Now, you might think that's straightforward, but trust me, it can get a bit tricky. Some cities sprawl over vast areas, while others pack a staggering number of people into a smaller space. So, when it comes to ranking the largest cities, it's all about the headcount.



Tokyo, Japan: A bustling metropolis with unparalleled urban density

We start our journey in the land of the rising sun, where the cityscape of Tokyo leaves even the most seasoned urbanite in awe. With a population of over 37 million people, this vibrant metropolis holds the title for the largest city in the world. But what sets Tokyo apart from its fellow giants? Let's find out!

Historical background of Tokyo's growth

Tokyo's rise to supercity status can be traced back to its humble beginnings as a small fishing village called Edo. Over centuries, it evolved into the political and cultural epicenter of Japan. Rapid modernization and economic growth in the 20th century catapulted Tokyo to its current status as a global powerhouse.

Infrastructure and transportation in Tokyo

In a city where every inch of land is precious, Tokyo has mastered the art of vertical construction. Its iconic skyscrapers jostle for space, creating a mesmerizing skyline. And don't even get me started on the transportation system. From bullet trains that whisk you across the country to a subway network that appears straight out of a sci-fi movie, Tokyo's infrastructure is a marvel of efficiency.

Cultural highlights and attractions

Tokyo is not just about business and technology; it's a city that embraces its cultural heritage. You can explore ancient temples and shrines, lose yourself in lively markets, or dive into the world of manga and anime. And when it comes to food, Tokyo will spoil you with its mind-boggling range of culinary delights. Sushi, ramen, tempura, takoyaki – you name it, they've got it. Tokyo truly offers something for everyone.



Delhi, India: Exploring the challenges of rapid urbanization

Next up, we venture to the bustling capital of India, Delhi. With a population of over 30 million people, this city is a melting pot of cultures, languages, and traditions. But it's not all glitz and glamour for Delhi. Rapid urbanization has brought its fair share of difficulties. Let's take a closer look.

Population explosion and urban sprawl

Delhi has experienced an unprecedented population explosion in recent decades, fueling rapid urban sprawl. The city's infrastructure struggles to keep pace with this exponential growth, leading to overcrowding, traffic congestion, and strains on basic amenities.

Infrastructure development and managing resources

Efficient infrastructure development is crucial to meet the needs of a growing population, but it's easier said than done. Delhi faces challenges in providing adequate housing, clean water, and reliable electricity to its residents. The government has its work cut out to ensure sustainable resource management and improve the quality of life for all Delhiites.

Socioeconomic disparities and slum areas

As in many other megacities, Delhi grapples with stark socioeconomic disparities. The city is home to affluent neighborhoods with luxurious apartments and posh shopping districts, but it also harbors sprawling slum areas that house a significant portion of its population. Bridging this gap and ensuring equal opportunities for all remains a pressing concern.

There you have it, a glimpse into two of the largest cities in the world – Tokyo and Delhi. From their rich histories to the challenges they face in the present, these cities illustrate the complexity and diversity of urban life on a massive scale. Stay tuned as we continue our exploration of the remaining mega-metropolises.



Shanghai, China: Economic powerhouse and architectural marvels

Shanghai, China's largest city, is a thriving metropolis that has made its mark as a global financial center and a hub of innovation. With its towering skyscrapers and futuristic urban planning, Shanghai is a city that never fails to impress.

Rise of Shanghai as a global financial center

Over the past few decades, Shanghai has emerged as a major player in the global economy. Its stock exchange and financial institutions have attracted businesses and investors from around the world. The city's strategic location and business-friendly policies have propelled its rise as a financial powerhouse.

Skyscrapers and innovative urban planning

Shanghai's skyline is synonymous with modernity and architectural marvels. From the iconic Oriental Pearl Tower to the breathtaking Shanghai Tower, the city boasts an impressive collection of skyscrapers. Its innovative urban planning has also earned it recognition for creating spaces that are functional, aesthetically pleasing, and environmentally sustainable.

Preserving cultural heritage amidst modernization

As Shanghai continues to grow and modernize, it has also made efforts to preserve its rich cultural heritage. Traditional neighborhoods like the Bund and the Old Town offer glimpses into Shanghai's past, with beautiful historical buildings and traditional architecture. The city strikes a balance between embracing progress and honoring its roots.



Sao Paulo, Brazil: A vibrant cultural hub amidst social and economic disparities

Sao Paulo, Brazil's largest city, is a lively cultural melting pot that captivates visitors with its diversity and energy. However, it is not without its challenges, as social and economic disparities create a complex urban landscape.

Diversity and multiculturalism in Sao Paulo

Sao Paulo is a city where people from all walks of life come together. Its population is a rich tapestry of cultures, with immigrants from various countries adding to its vibrant multiculturalism. This diversity is reflected in the city's food, music, and festivals, making it a truly unique experience for residents and visitors alike.

Income inequality and favela communities

Despite its cultural wealth, Sao Paulo grapples with income inequality, which is evident in the stark contrast between affluent neighborhoods and favela communities. These informal settlements house a significant portion of the city's population and face challenges such as inadequate infrastructure and limited access to basic services.

Arts, music, and culinary scene in Sao Paulo

Despite its socio-economic disparities, Sao Paulo has a thriving arts, music, and culinary scene that adds another layer of richness to its cultural fabric. The city is known for its street art, vibrant music festivals, and a diverse gastronomic offering that showcases the fusion of different culinary traditions.



Mexico City, Mexico: Coping with population growth and environmental concerns

Mexico City, the capital of Mexico, is a bustling metropolis that faces unique challenges arising from its rapid population growth and environmental concerns.

Managing the challenges of overpopulation

With a population of over 20 million people, Mexico City is one of the most populous cities in the world. This presents a range of challenges, including traffic congestion, inadequate housing, and strain on public services. The city is constantly adapting and implementing innovative solutions to manage its growing population.

Environmental issues and initiatives

Environmental sustainability is a pressing concern for Mexico City. The city faces challenges such as air pollution and water scarcity, but it has also taken steps to address these issues. Initiatives like public transportation improvements, recycling programs, and the creation of green spaces are helping to make the city more environmentally friendly.

Celebrating Mexican history and heritage

Mexico City proudly celebrates its rich history and heritage. From ancient ruins like Teotihuacan to iconic landmarks such as the Metropolitan Cathedral, the city embodies the fusion of indigenous and colonial influences. Festivals like Dia de los Muertos and traditional markets like Mercado Jamaica offer glimpses into Mexico's vibrant cultural traditions.



New York City, United States: The epitome of diversity and global influence

New York City, often referred to as the "Big Apple," is a city that needs no introduction. From its cultural diversity to its iconic landmarks, the city has become a symbol of global influence and a magnet for dreamers and doers.

Melting pot of cultures and languages

New York City is a true melting pot, where people from all corners of the globe come together. Its diverse neighborhoods offer a taste of countless cultures and cuisines, and over 800 languages are spoken within its boundaries. This cultural tapestry is what gives the city its unique energy and character.

Iconic landmarks and architectural wonders

From the Statue of Liberty to Times Square, New York City is home to some of the world's most recognizable landmarks. Its skyline, adorned with skyscrapers like the Empire State Building and One World Trade Center, is a testament to human ambition and architectural marvels.

Economic power and influence on global affairs

New York City's influence extends far beyond its borders. It is a global financial hub, accommodating Wall Street and a multitude of international corporations. The city's economic power and cultural influence have made it a center for arts, fashion, media, and innovation. What happens in New York often resonates around the world.

In conclusion, the largest cities in the world offer a captivating glimpse into the diverse tapestry of human civilization. From the bustling streets of Tokyo to the sprawling slums of Delhi, and the towering skyscrapers of Shanghai to the vibrant cultural hub of Sao Paulo, each city has its own unique story to tell. While these cities grapple with challenges such as population growth, socioeconomic disparities, and environmental concerns, they also serve as beacons of opportunity, innovation, and cultural exchange. As we continue to witness the ongoing evolution of these megacities, it becomes clear that their impact on our global society is immeasurable. By understanding and appreciating the complexities of these urban giants, we can strive to create better, more sustainable and inclusive cities for future generations.



FAQ

1. How are the largest cities in the world determined?

Answer: Determining the largest cities in the world typically involves considering factors such as population size, urban area, and population density. Various methodologies and sources, such as official government data and reputable statistical organizations, are used to compile lists of the world's largest cities.


2. What are some common challenges faced by these megacities?

Answer: Megacities often face common challenges such as rapid urbanization, strained infrastructure, housing shortages, traffic congestion, environmental issues, and socioeconomic disparities. Managing these challenges requires careful planning, innovative solutions, and a focus on sustainable development.


3. How do these cities contribute to global culture and economy?

Answer:The largest cities are often epicenters of cultural exchange, attracting people from different backgrounds and fostering multiculturalism. They serve as hubs for business, finance, arts, and innovation, driving economic growth and influencing global trends. These cities showcase the interconnectedness of our world and play a vital role in shaping the global culture and economy.


4. Are there any notable historical or cultural landmarks in these cities?

Answer:Yes, these cities boast numerous historical and cultural landmarks that reflect their rich heritage. From ancient temples and palaces to modern architectural marvels, visitors can explore iconic sites such as the Tokyo Imperial Palace, the Red Fort in Delhi, the Bund in Shanghai, the Museu de Arte de São Paulo in Sao Paulo, the Zócalo in Mexico City, and landmarks like the Statue of Liberty in New York City, which embody the unique character and history of each metropolis.

Tuesday, 23 January 2024

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے تین سو یونٹس تک مفت بجلی فراہم کرنے کے انتخابی وعدے معاشی طور پر قابلِ عمل ہیں؟

No comments :

 

تنویر ملک
عہدہ,صحافی

پاکستان میں انتخابات کی آمد آمد ہے اور الیکشن سے چند ہفتے قبل سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ووٹرز سے کیے گئے روایتی وعدے بھی دن بدن زور پکڑ رہے ہیں۔ ایسے ہی کئی وعدوں میں سے ایک بجلی کے مفت یونٹس کا وعدہ ہے۔

آئندہ ماہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے بلے کا نشان نہ ملنے کی وجہ سے اس کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت بننے کے بعد 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کرے گی۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ حکومت بننے کے بعد ان کی کوشش ہو گی 
کہ صارفین کو 200 یونٹس استعمال کرنے پر بجلی مفت فراہم کی جائے۔
___________________________________________________________________________________
You Will Also Like This Article : 

These Words Make it Obvious That Your Text is Written By AI

___________________________________________________________________________________


مریم نواز کے بعد شریف فیملی کے رکن اور مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے صارفین کو بجلی کے تین سو یونٹس استعمال کرنے پر بجلی کی مفت فراہمی کا اعلان کیا ہے۔

ملک میں گذشتہ سال بننے والی نئی سیاسی جماعت استـحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کی جانب سے دسمبر کے مہینے میں کہا گیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی حکومت میں آتی ہے تو صارفین کو تین سو یونٹس تک بجلی مفت ملے گی

مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بجلی کے بلوں میں ریلیف کے اعلانات اور انتخابی وعدوں کی وجہ ملک میں بجلی کے بلوں میں ہونے والا بے تحاشہ اضافہ ہے، جس میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز شریف کی جانب سے ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب میں بجلی صارفین کو سو یونٹس تک بجلی مفت دینے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم جولائی 2022 میں ہونے والے ضمنی اتنخابات کی وجہ سے اس پر عملدر آمد روک دیا گیا تھا۔



سیاسی جماعتوں کے ان انتخابی وعدوں پر عام پاکستانی کیا کہتے ہیں؟


پاکسان میں ایک عام آدمی اس وقت بلند شرح مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے اور اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 29 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

مہنگائی کی اس بلند شرح کی ایک وجہ بجلی کے بلوں میں ہونےوالا بے تحاشہ اضافہ بھی ہے جس میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

پاکستان میں آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے تحت ملک میں بجلی کا ’بیس ٹیرف‘ اس مالی سال کے شروع میں پانچ روپے فی یونٹ بڑھایا تھا جس کے بعد پورے ملک کا اوسط بجلی کا ٹیرف 29 روپے تک ہو گیا۔

اس ’بیس ٹیرف‘ کے علاوہ بجلی کے بل میں ہر ماہ بجلی بنانے کے لیے ایندھن کی لاگت کی ایڈجسٹمنٹ بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ سہ ماہی بنیادوں پر بھی یہ ایڈجسٹمنٹ کی جاتی ہے جو بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافے کا سبب بنے ہیں۔

کراچی کے علاقے شیرشاہ میں کام کرنے والے منیر احمد بجلی کے بلوں میں اضافے سے پریشان ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے بجلی کے استعمال میں ریلیف پر انھیں یقین نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’یہ وہ لولی پاپ ہے جو ووٹ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

’یہ بہت مشکل ہے کیونکہ جو جماعتیں یہ اعلانات کر رہی ہیں وہ گذشہ سولہ ماہ کی حکومت میں اتحادی تھیں اور ان کے دور میں بجلی کےبلوں میں سے سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔‘

بلدیہ ٹاون کراچی کے رہائشی طارق شیخ نے گھر پر سولر سسٹم لگایا ہوا ہے تاکہ بجلی کے بل میں کمی آ سکے۔

طارق شیخ اسے صرف انتخابی اعلان سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’موجودہ حالات میں بجلی مفت فراہمی تو دور کی بات ہے اگر یہ دو سو سے تین سو یونٹس استعمال کرنے والی صارفین کو ڈیڑھ دو سال پہلے کے ٹیرف پر بجلی فراہم کر سکیں تو یہ بھی بڑی بات ہے۔‘


کیا 300 یونٹس تک بجلی فراہمی ممکن ہے یا صرف یہ ایک سیاسی نعرہ ہے؟
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تین سو یونٹس تک مفت بجلی فراہمی کے اعلانات پر جہاں عام آدمی یقین نہیں کر رہا تو دوسری جانب توانائی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق یہ ممکن ہے اور اسے صرف ایک سیاسی نعرہ ہی سمجھنا چاہیے۔

توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے ریوینیوبلز فرسٹ میں کام کرنے والے ماہر توانائی مصطفیٰ امجد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس اعلان کو حقیقت کے منافی قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کے شعبے کی جو صورتحال ہے اس میں تو ایسے کسی وعدے پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کم بجلی کے یونٹس استعمال کرنے والوں کو دو صورتوں میں مفت بجلی دی جا سکتی ہے کہ حکومت یا تو اپنے وسائل سے بجلی کمپنیوں کو پیسے دے کر لوگوں کو مفت بجلی فراہم کرے یا پھر ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی فراہم کی جا سکے یعنی دوسرے شعبوں کے لیے بجلی کے قیمت زیادہ کر کے تین سو یونٹس والوں کو بجلی فراہم کی جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی ناقابل عمل ہے کہ پاکستان کے بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2700 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ اب ایسی صورت میں اس شعبے کے اندر سکت نہیں کہ لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جا سکے۔

انرجی شعبے کے ماہر راؤ عامر نے بھی مفت بجلی فراہمی کے اعلانات کو غیر حقیقی قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی نہیں دی جا سکتی کیونکہ انڈسٹری پہلے ہی شور مچا رہی ہے کہ ان کا ٹیرف اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ ان کے لیے اس میں کام کرنا مشکل ہو گیا ہے اور انھیں زیادہ لاگت کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں اپنے مصنوعات بیچنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

دوسری جانب حکومت کے اپنے وسائل بھی بہت محدود ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان کو ساڑھے نو ہزار تک ریونیو اکٹھا کرنا ہے، جس میں سے 8500 ارب روپے تو بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔

عامر نے کہا کہ ’اگر ان اعلانات کے مطابق حکومتی خزانے سے رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ سالانہ ساڑھے سات سو ارب روپے بنتا ہے جس کے لیے وسائل نہیں ہیں کہ لوگوں کو مفت بجلی دی جا سکے۔‘


پاکستان میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کتنی ہے؟
سیاسی جماعتوں کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کے انتخابی وعدوں کے بعد یہ دیکھنا ہو گا کہ ملک میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کتنی ہے۔

ملک میں بجلی کی پیداوار کی گنجائش تو چالیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ تاہم بجلی اس سے کم پیدا کی جاتی ہے۔

گرمیوں میں بجلی کی طلب 25 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں اس کی طلب دس ہزار تک گر جاتی ہے۔

توانائی کے شعبے کے ماہر عامر راؤ کے مطابق موجودہ مالی سال میں بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے ہیں اور یہ رقم گھریلو، صنعتی، زرعی اور کمرشل صارفین سے بجلی کے بلوں کی صورت میں اکٹھی کی جائے گی۔

اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین مجموعی صارفین کی تعداد کا دو تہائی ہیں اور حکومت نے اس سال بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب اکٹھا کرنا ہے۔‘

اس کا مطلب ہے کہ تین سو یونٹس تک بجلی مفت کرنے پر دو ہزار ارب روپے دینے پڑیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی مفت دینے کے اعلانات لولی پاپ سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں۔‘

شہباز رانا نے آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے تین سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف کو بھی اگر نظر انداز کر لیں تو یہ ویسے ہی مالی طور پر ممکن نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف تو اس شعبے میں ایک ارب روپے کی سبسڈی دینے کی اجازت نہیں دے گا، دو ہزار ارب روپے کی رقم تو بہت بڑی بات ہے۔‘