Stay Connected

Showing posts with label Urdu. Show all posts

Monday, 20 May 2024

’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘

No comments :

 


حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں میاں نواز شریف کے سوا کوئی تین بار وزیرِ اعظم نہیں بنا۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا وزیرِ اعظم نہیں گزرا جسے دو بار (2000 اور 2019 میں) ایسی سزا ہوئی ہو جس میں ضمانت تو کیا پیرول پر رہائی بھی عام آدمی کے لیے ناممکن ہے۔


مگر دونوں بار میاں صاحب جیل کی سلاخوں کے بیچ میں سے ایسے نکلے جیسے 20ویں صدی کا عظیم شعبدہ باز ہوڈینی ہر بار پانی کے گہرے ٹینک میں زنجیر بکف قید ہونے کے باوجود باہر نکل آتا تھا۔


میاں صاحب کے خلاف جتنے بھی مقدمات بنائے گئے اور ان مقدمات میں جتنی بھی سزائیں اور جرمانے سنائے گئے وہ ان سب سے ایسے بری ہوئے کہ خود بھی ششدر رہ گئے۔


میاں صاحب اتنے خوش قسمت ہیں کہ اس وقت ان کا بدترین سیاسی دشمن سیاست سے نااہل قرار پا کے جیل میں ہے۔ بیسیوں مقدمات اس دشمن سے آکٹوپس کی طرح لپٹے ہوئے ہیں۔

خود میاں صاحب قومی اسمبلی کے ’چنتخب‘ رکن ہیں۔ ان کے برادرِ خورد دوسری بار وزیرِ اعظم مقرر ہوئے ہیں۔ ان کے سمدھی نائب وزیرِ اعظم، وزیرِ خارجہ اور غیر رسمی وزیرِ خزانہ یعنی تھری ان ون ہیں۔


ان کی صاحبزادی سب سے بڑے صوبے کی وزیرِ اعلٰی ہیں اور خود میاں صاحب برسراقتدار جماعت کے سپریم لیڈر ہیں۔


پھر بھی جو مل گیا اس پر خوش، مطمئن اور قانع ہونے کے بجائے وہ پہلے سے زیادہ افسردہ ہیں۔


ان کے اس غم کا مداوا دنیا کی کوئی راحت نہیں کر سکتی کہ ’مجھے تینوں بار کیوں نکالا؟‘، ’میرا قصور کیا تھا؟‘


’مجھے نکالا تو قوم مجھے نکالنے والوں کے خلاف باہر کیوں نہیں نکلی؟‘


’کیا میں نے موٹرویز نہیں بنائے؟ کیا ایٹمی دھماکے نہیں کیے۔ کیا میں نے اقتصادی ترقی کے بڑے بڑے منصوبے شروع نہیں کیے؟ تو پھر کیوں نکالا؟


’ان جرنیلوں اور ججوں کو کب کٹہرے میں کھڑا کیا جاوے گا؟ جنھوں نے مجھے نکالا؟ کیوں نکالا؟ کیوں نکالا؟ آخر کیوں نکالا؟‘


شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا


میاں صاحب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اکثر انسان حال سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے ماضی کی کٹیا میں رہنا پسند کرتے ہیں اور خود پر ترس کھاتے رہتے ہیں۔


رفتہ رفتہ یادداشت بھی منتخب ہو جاتی ہے۔ زندگی میں جہاں جہاں جو جو سمجھوتے کیے یا جس جس کو سیڑھی سے گرایا اور جس جس کو سیڑھی بنا کے اوپر آئے اور جنھوں نے بار بار سیڑھی کھینچی انہی کے طفیل قانونی و سیاسی و انتخابی مشکلات سے بھی نکلے۔


کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ بس ایک ’میں اور مجھے‘ ذہن میں پھانس کی طرح اٹک جاتی ہے اور اس پھانس کی ٹیس کبھی سکون سے نہیں رہنے دیتی۔



آپ کو کسی بھی وزیرِ اعظم کی دو چار قہقہہ بار تصاویر ضرور انٹرنیٹ پر مل جائیں گی۔ میاں صاحب کی کوئی کھلکھلاتی تصویر نکال کے دکھائیں تو جانیں۔ آپ کے لبوں پر کبھی کبھی جو تبسم بھی آتا ہے اس میں بھی بے ساختگی بمشکل جگہ بنا پاتی ہے۔


جب میاں صاحب طاقت کا منبع تھے تب بھی نہ ہی اپنا نامزد کردہ کوئی اچھا سپاہ سالار ملا اور نہ ہی کوئی اچھا جج۔ اور آج جب وہ سیاسی حاشیہ بن چکے ہیں تب بھی وہ 1993، 1999، 2015 اور 2018 میں خمیہ زن ہیں مگر آٹھ فروری 2024 کے یومِ بحالیِ شریف خاندان کا ذکر نہیں کرتے۔


حیدر آباد دکن کے آخری تاجدار میر عثمان علی خان جب کم سن تھے تو ان کے والد میر محبوب علی خان روزانہ ایک طلائی سکہ دیا کرتے تھے۔ایک دن میر محبوب علی خان دربار سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ صاحب زادے پریشانی کے عالم میں باغ میں کچھ تلاش کر رہے ہیں اور پسینے پسینے ہو رہے ہیں۔پتہ چلا کہ ان کا طلائی سکہ کہیں کھو گیا ہے۔ والد نے میر عثمان علی خان کو کہا کہ صاحب زادے آپ کیوں خود کو تھکا رہے ہیں۔ یہ لیجیے نیا سکہ اور اسے سنبھال کے رکھیے۔


سہہ پہر کو قیلولے کے بعد جب میر محبوب علی خان دوبارہ باغ سے گذرے تو دیکھا کہ صاحبزادے وہیں موجود ہیں اور کھویا ہوا سکہ بدستور ڈھونڈ رہے ہیں۔

Monday, 12 February 2024

محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

No comments :

  جون 712 عیسوی کو محمد بن قاسم نے راجہ ڈاہر کو شکست دے کرسندھ فتح کیا تھا۔



 

کہا جاتا ہے کہ سندھ کے حکمران راجہ ڈاہر کو جب اُموی سالار محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست ہو گئی تو اُن کی دو بیٹیوں سوریا اور پریمل کو محمد بن قاسم نے راجہ کی ہلاکت کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس دارالخلافہ بغداد روانہ کر دیا۔

خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب بڑی بیٹی سوریا سے خلوت کا ارادہ کیا تو سوریا نے چال چلی اور خلیفہ سے کہا کہ محمد بن قاسم پہلے ہی اُن کے ساتھ خلوت اختیار کر چکا ہے چنانچہ وہ اب خلیفہ کے شایانِ شان نہیں رہیں۔

غصے میں خلیفہ کو تحقیق کا ہوش نہیں رہا اور اُنھوں نے اسی وقت محمد بن قاسم کے نام پروانہ جاری کیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں خود کو کچی کھال میں سلوا کر دارالخلافہ کو واپس ہوں۔

محمد بن قاسم نے ایسا ہی کیا اور دارالخلافہ کے راستے میں ہی دو دن بعد اُن کی موت ہو گئی۔

یہ کہانی کتاب فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ میں بیان کی گئی ہے۔

روایت کے مطابق اس کے بعد راجہ ڈاہر کی بیٹی کا ایک طویل خطاب ہے جس میں وہ محمد بن قاسم کی عادل حکمرانی کی گواہی دیتی ہیں مگر اُن کی ہلاکت کی سازش رچنے کو اپنے والد کا بدلہ قرار دیتی ہیں۔

اسی خطاب میں وہ محمد بن قاسم کے بارے میں بھی کہتی ہیں کہ اُنھیں فرمانبرداری میں بھی عقل سے کام لینا چاہیے تھا اور خلیفہ کو بھی کہتی ہیں کہ اُسے بھی سنی سنائی بات پر اتنا سخت حکم جاری کرنے سے قبل تحقیق کر لینی چاہیے تھی۔

چچ نامہ کے مطابق راجہ ڈاہر کی بیٹی نے کہا: دانا بادشاہِ وقت پر واجب ہے کہ جو کچھ بھی دوست یا دشمن سے سنے، اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور دل کے فیصلوں سے اس کا موازنہ کرے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ پاک دامنی کے اعتبار سے محمد بن قاسم ہمارے لیے باپ اور بھائی جیسا تھا اور ہم کنیزوں پر اس نے کوئی دست درازی نہیں کی۔ لیکن چونکہ اُس نے ہند اور سندھ کے بادشاہ (راجہ ڈاہر) کو برباد کیا تھا اس لیے ہم نے انتقاماً خلیفہ کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔

اس پر خلیفہ نے غضبناک ہو کر دونوں بہنوں کو دیوار میں چُن دینے کا حکم دیا۔

بنو اُمیہ کے دور میں سندھ فتح کرنے والے نوجوان سالار محمد بن قاسم اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور کی ’مبینہ‘ کنیز انار کلی کی موت کی کہانیوں میں خواتین کے دیوار میں چُنوائے جانے کی قدر مشترک ہے۔

انار کلی کے بارے میں کہانی یہ منسوب ہے کہ اکبر بادشاہ نے اُنھیں شہزادہ نور الدین محمد سلیم (بعد میں جہانگیر) سے معاشقے کی وجہ سے دیوار میں چُنوا کر ہلاک کروا دیا تھا۔

مگر انارکلی کے وجود کے بارے میں ہی مؤرخین کو شبہ ہے اور اُن کے بارے میں تاریخی ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔ چنانچہ اُن کی موت کی کہانی تو دور کی بات ہے۔

اور محمد بن قاسم اور راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کی ہلاکت سے متعلق اس پوری کہانی پر بھی مؤرخین کو اعتراضات ہیں۔

و پھر محمد بن قاسم کی موت واقعتاً کیسے ہوئی اور مندرجہ بالا واقعے کی تاریخی حقیقت کیا ہے، اس پر بات کریں گے لیکن اس سے پہلے کچھ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد اور فتوحات کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر یہ دیکھیں گے کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی ’مبینہ‘ قبریں بلوچستان میں

اگر آپ کراچی سے گوادر جانا چاہتے ہیں تو آپ پہلے تو آر سی ڈی ہائی وے پر کوئی دو گھنٹے کی ڈرائیو کریں گے جس کے بعد بائیں جانب مکران کوسٹل ہائی وے کا آغاز ہوتا ہے جو اپنے آپ میں حیرتوں سے بھرپور سڑک ہے۔

یہیں پر تھوڑا آگے جا کر بائیں جانب ایک پتھر کی تختی پر لکھا ہے کہ یہاں فاتحِ سندھ محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں موجود ہیں۔

نامور مصنف و محقق سلمان رشید کے مطابق یہ قبریں محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی نہیں ہیں کیونکہ آٹھویں صدی میں عرب سندھ کے چوکنڈی قبرستان جیسی نقش و نگار سے مزیّن قبریں نہیں بنایا کرتے تھے، اور ویسے بھی قبروں کا یہ طرزِ تعمیر تقریباً سولہویں صدی کا قرار دیا جاتا ہے۔

ایک اور تحقیق کے مطابق یہ قبریں اٹھارہویں صدی کے وسط سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کا تذکرہ منان احمد آصف نے اپنی کتاب ’اے بُک آف کونکوئسٹ‘ میں بھی کیا ہے۔

مگر پاکستان میں محمد بن قاسم سے متعلق متنازع باتوں میں سے یہ صرف ایک بات ہے۔

مطالعہ پاکستان کی درسی کتب میں اکثر و بیشتر یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد اُسی دن پڑ گئی تھی جس دن محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔

محمد بن قاسم اُموی دورِ حکومت کے وہ سالار تھے جنھوں نے 712 سنِ عیسوی میں سندھ پر حملہ کیا اور یہاں کے راجہ ڈاہر کو شکست دی۔

بعض مؤرخین کے نزدیک محمد بن قاسم کے آنے سے جنوبی ایشیا میں اسلامی دور کا آغاز ہوا، سندھ فتح ہوا اور یوں واقعات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔

مگر مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق پیغمبرِ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب تاجر برِصغیر میں رہائش پذیر تھے اور کچھ کے نزدیک یہاں کی مقامی خواتین سے شادیاں تک کر رہے تھے۔

کتاب ’دی گریٹ مغلز اینڈ دیئر انڈیا‘ میں مصنف ڈرک کولیئر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ انڈیا کے جنوب مغرب میں مالابار کے ساحلی علاقے (موجودہ کرناٹک اور کیرالہ) میں عرب تاجر یہاں پہلے سے مقیم تھے اور جب خطہ عرب میں اسلام آیا تو ممکنہ طور پر ان عربوں نے بھی اسلام قبول کیا ہو گا۔

اپنی کتاب کے ابتدائیے میں اُنھوں نے خطہ برِصغیر میں اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے متعدد نظریات کا ذکر کیا ہے جس میں ہجرت، تلوار، خوف، صوفیا کے عمل اور تبلیغ، سماجی رتبے کے حصول اور پرامن روابط مثلاً تجارت اور باہمی شادیاں شامل ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے (چند) واقعات کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا، تاہم کئی دیگر علاقوں مثلاً مالابار کے ساحلوں میں اسلام کی کامیابی کا تعلق جبر یا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی برتری سے نہیں تھا۔

اس کے علاوہ اُن کے نزدیک نئے مذہب کے مضبوط اور مساوات پر مبنی پیغام کا اثر بالخصوص نچلی ذات کے افراد پر ضرور ہوا ہو گا۔

چنانچہ وہ اس علاقے میں پہلے سے عربوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد سے کہیں قبل برِصغیر میں اسلام کی آمد کا عرصہ متعین کرتے ہیں۔

لہٰذا پاکستان کی درسی کُتب میں عام طور پر پڑھائے جانے والے بیانیے کے برعکس تاریخی بیانیے بھی موجود ہیں۔

کتاب فُتوح البلدان نوویں صدی عیسوی میں عباسی دورِ حکومت میں تحریر کی گئی اور اسے اسلامی فتوحات کی تاریخ کی اہم ترین اور مستند کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اس کتاب میں مصنف احمد بن یحییٰ البلاذری نے محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بعد کے واقعات خصوصی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے بہت سے مفتوحہ علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلے، واپس فتح ہوئے، کسی نے واپس اپنا پچھلا مذہب اختیار کر لیا تو کسی نے مسلمانوں سے اپنا معاہدہ توڑ لیا۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد بن قاسم سے پہلے کوئی مسلمان مہم سندھ میں آئی تھی یا نہیں۔

بلاذری کے مطابق خلیفہ دوم عمر بن الخطاب کے دور میں 15 ہجری میں اُنھوں نے عثمان بن ابوالعاص الثقفی کو بحرین اور عمان پر گورنر مقرر کیا، تو عثمان نے ایک فوج تھانہ (یا تانہ) کی جانب بھیجی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ عثمان کے بھائی الحکم نے اپنے بھائی المغیرہ ابن ابوالعاصی کو خلیجِ دیبل کی جانب بھیجا جہاں اُنھوں نے دشمن پر فتح پائی۔

فتوح البلدان کا اردو ترجمہ سید ابوالخیر مودودی نے کیا ہے جس میں اُنھوں نے دیبل کو تو دریائے سندھ کے قریب واقع ایک بڑا تجارتی شہر قرار دیا ہے مگر تھانہ کا تذکرہ نہیں کیا کہ یہ کون سا شہر ہے۔

اس کا تذکرہ ہمیں ابنِ بطوطہ کے سفرنامے میں ملتا ہے جب اُنھوں نے یمن کی بندرگاہِ عدن کے بارے میں بتایا ہے کہ یہاں انڈیا کے کئی شہروں بشمول ’تھانہ‘ سے بھی جہاز آتے ہیں۔

چنانچہ یہ شہر ’تانہ‘ انڈین ریاست مہاراشٹر کا شہر تھانے یا تھانہ ہے جو ممبئی کا پڑوسی شہر ہے اور یہاں تک وسائی کھاڑی (ندی) کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے جو اس شہر کو ساحل سے کافی دور ہونے کے باوجود بحیرہ عرب سے ملا دیتی ہے۔

خطہ سندھ اور بلوچستان میں اوّلین اسلامی مہمات

موجودہ پاکستان کے دیگر خطوں میں محمد بن قاسم سے پہلے مسلمانوں کی آمد کے بارے میں ایک اور روایت فتوح البلدان سے ہی ملتی ہے جس کے مطابق سنہ 38 یا سنہ 39 ہجری میں حضرت علی کے دور میں اور پھر سنہ 44 ہجری میں امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں قیقان (موجودہ قلات) اور بنہ (موجودہ بنوں) پر حملے کیے گئے۔

اگر محمد بن قاسم کی سندھ پر لشکر کشی پہلی فوجی مہم نہیں تھی اور اس سے قبل بھی اس علاقے پر حملے کیے جاتے رہے تھے تو پھر اس واقعے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جس کے مطابق عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کو سندھ کی جانب بھیجا؟

یہ کہانی بھی چچ نامہ میں کافی تفصیل سے موجود ہے۔

چچ نامہ یا فتح نامہ سندھ، خطہ سندھ کی فتح پر لکھی گئی پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل مؤرخین نے سندھ اور ہند کی فتح پر باب تو باندھے ہیں لیکن مکمل کتابی صورت میں صرف چچ نامہ ہی ملتی ہے۔

چچ نامہ تیرہویں صدی میں علی کوفی کی فارسی میں ترجمہ کردہ کتاب ہے جو اُن کے مطابق اُنھوں نے ایک عربی کتاب سے فارسی میں منتقل کی، تاہم وہ عربی کتاب اب تک باقاعدہ دریافت نہیں ہو سکی ہے نہ ہی اس حوالے سے معلومات ہیں کہ وہ کس کی تصنیف تھی۔

تاہم اس کتاب میں موجود روایات اور تاریخی حوالوں کو محققین پرکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

چچ نامہ میں بیان کیے گئے دیگر واقعات کے برعکس مسلمان قیدیوں کے بارے میں تحریر اس واقعے کی شروعات میں اس کی سند موجود نہیں ہے۔

مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی اور محقق و مصنف منان احمد آصف کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ درست نہیں ہے۔

اس کے علاوہ تاریخ ابنِ خلدون میں بھی دیبل کی فتح کے باب میں اس واقعے کا تذکرہ نہیں ہے۔

مذکورہ واقعے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ حجاج کے گورنر محمد بن ہارون بن ذراع النمری کے دور میں پیش آیا تاہم بلاذری اور چچ نامہ، دونوں ہی نے وہ سال نہیں لکھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔

محمد بن ہارون النمری کا تقرر چچ نامہ کے مطابق سنہ 86 ہجری میں ہوا اور محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ 93 ہجری یا 712 عیسوی میں ہوا۔ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو کس سال میں ہوا اور یہ کہ اس واقعے کے کتنے عرصے بعد محمد بن قاسم نے سندھ پر لشکر کشی کی۔

اس کے علاوہ اگر حضرت عمر کے دور سے لے کر ولید بن عبدالملک کے دور تک کا جائزہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سندھ پر محمد بن قاسم کی لشکر کشی کئی دہائیوں طویل سلسلے میں تازہ ترین کوشش تھی جس میں اُنھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔

پھر تاریخ کی کتب میں یہ بھی تذکرہ ہے کہ اس وقت علافی یا علوی گروہ کے کئی لوگ مکران میں آ بسے تھے۔ اُن میں سے ایک کو حجاج کے عملدار سعید بن اسلم کلابی نے قتل کیا تھا، چنانچہ بدلے میں علافیوں نے بھی سعید بن اسلم کو قتل کر دیا، جس پر حجاج بن یوسف نے علافیوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تھا۔

جب خلافتِ اُموی کی طرف سے مکران میں بسے ان علافیوں کے خلاف بار بار مہمات کی گئیں تو یہ لوگ سندھ میں راجہ ڈاہر کے پاس چلے گئے چنانچہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ خود حجاج بن یوسف کے دور میں مکران اور سندھ کی طرف بنو اُمیہ کے مخالفین موجود تھے۔

اس کے علاوہ سندھ کی فتح کی اس مہم پر بلاذری کے مطابق چھ کروڑ درہم خرچ ہوئے اور اس کے بدلے میں 12 کروڑ درہم کا مالِ غنیمت حاصل ہوا۔

چنانچہ منان احمد آصف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’جب السند (سندھ) پر حملہ ہوا تو اس کا تعلق بنو امیہ کی شاخِ مروان کے مالیاتی اُمور یا باغیوں کے خلاف سرحدی خطے پر قبضے سے تھا، نہ کہ قزاقوں کی کسی رومانوی داستان سے۔‘

محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بارے میں مشہور افسانہ

چچ نامہ میں کہا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی ہلاکت راجہ ڈاہر کی دو بیٹیوں کی سازش کی وجہ سے ہوئی مگر اس حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کا دعویٰ ہے کہ یہ کہانی من گھڑت اور افسانوی ہے۔

سندھ کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان (این اے) بلوچ نے چچ نامہ کی صحت اور اس میں موجود تاریخی حوالوں کے بارے میں جرح کی ہے۔

ڈاکٹر این اے بلوچ کا چچ نامہ پر تحریر کیا گیا مقدمہ بھی اپنے آپ میں ایک پوری کتاب ہے جس میں اُنھوں نے محمد بن قاسم کی ہلاکت اور پھر راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کے بغداد کی کسی دیوار میں چُن دیے جانے کی کہانی کو کہانی ہی قرار دیا ہے، حقیقت نہیں۔

سب سے پہلے تو اس کہانی کے مطابق خلیفہ نے محمد بن قاسم کو دارالخلافہ بغداد بلوایا۔ حالانکہ اُس زمانے میں بغداد کا وجود نہیں تھا، بلکہ دارالخلافہ دمشق تھا۔

اس کے بعد اس میں لکھا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی موت خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر ہوئی تاہم بلاذری اور دیگر مؤرخین کے مطابق یہ واقعہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں پیش آیا۔

بلاذری کے مطابق ولید بن عبدالملک کی موت کے بعد سلیمان بن عبدالملک حکمران ہوئے تو اُنھوں نے صالح بن عبدالرحمان کو عراق کا والی اور یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا عملدار مقرر کیا۔

یزید نے محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے صالح کے پاس عراق بھیج دیا جہاں اُنھیں حجاج بن یوسف کے سابقہ انتظامی ہیڈکوارٹر واسط کے ایک عقوبت خانے میں قید کر کے ایذا رسانیاں کی گئیں اور وہ ہلاک ہو گئے۔

اسی بیان کی تصدیق تاریخ ابنِ خُلدون سے بھی ہوتی ہے۔

فُتوح البلدان میں لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم قید میں تھے تو اُنھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر یہ اشعار کہے:

ہر چند کہ میں واسط میں بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہوں

مگر کبھی میں نے ایران کے کتنے ہی شہ سوار زیر کیے

اور اپنے جیسے کتنے ہی پہلوانوں کو پچھاڑا ہے

ایک اور شعر جو محمد بن قاسم سے منسوب کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:

اُنھوں نے مجھے ضائع کر دیا، جوان بھی ایسا کہ مردِ نبرد اور سرحد کا محافظ تھا۔

چنانچہ محمد بن قاسم کی معزولی اور ہلاکت سے اُس دور میں ہونے والی سیاسی سازشیں اور آپسی دشمنیاں بھرپور انداز میں عیاں ہو جاتی ہیں۔

Tuesday, 23 January 2024

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے تین سو یونٹس تک مفت بجلی فراہم کرنے کے انتخابی وعدے معاشی طور پر قابلِ عمل ہیں؟

No comments :

 

تنویر ملک
عہدہ,صحافی

پاکستان میں انتخابات کی آمد آمد ہے اور الیکشن سے چند ہفتے قبل سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ووٹرز سے کیے گئے روایتی وعدے بھی دن بدن زور پکڑ رہے ہیں۔ ایسے ہی کئی وعدوں میں سے ایک بجلی کے مفت یونٹس کا وعدہ ہے۔

آئندہ ماہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے بلے کا نشان نہ ملنے کی وجہ سے اس کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت بننے کے بعد 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کرے گی۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ حکومت بننے کے بعد ان کی کوشش ہو گی 
کہ صارفین کو 200 یونٹس استعمال کرنے پر بجلی مفت فراہم کی جائے۔
___________________________________________________________________________________
You Will Also Like This Article : 

These Words Make it Obvious That Your Text is Written By AI

___________________________________________________________________________________


مریم نواز کے بعد شریف فیملی کے رکن اور مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے صارفین کو بجلی کے تین سو یونٹس استعمال کرنے پر بجلی کی مفت فراہمی کا اعلان کیا ہے۔

ملک میں گذشتہ سال بننے والی نئی سیاسی جماعت استـحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کی جانب سے دسمبر کے مہینے میں کہا گیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی حکومت میں آتی ہے تو صارفین کو تین سو یونٹس تک بجلی مفت ملے گی

مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بجلی کے بلوں میں ریلیف کے اعلانات اور انتخابی وعدوں کی وجہ ملک میں بجلی کے بلوں میں ہونے والا بے تحاشہ اضافہ ہے، جس میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز شریف کی جانب سے ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب میں بجلی صارفین کو سو یونٹس تک بجلی مفت دینے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم جولائی 2022 میں ہونے والے ضمنی اتنخابات کی وجہ سے اس پر عملدر آمد روک دیا گیا تھا۔



سیاسی جماعتوں کے ان انتخابی وعدوں پر عام پاکستانی کیا کہتے ہیں؟


پاکسان میں ایک عام آدمی اس وقت بلند شرح مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے اور اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 29 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

مہنگائی کی اس بلند شرح کی ایک وجہ بجلی کے بلوں میں ہونےوالا بے تحاشہ اضافہ بھی ہے جس میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

پاکستان میں آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے تحت ملک میں بجلی کا ’بیس ٹیرف‘ اس مالی سال کے شروع میں پانچ روپے فی یونٹ بڑھایا تھا جس کے بعد پورے ملک کا اوسط بجلی کا ٹیرف 29 روپے تک ہو گیا۔

اس ’بیس ٹیرف‘ کے علاوہ بجلی کے بل میں ہر ماہ بجلی بنانے کے لیے ایندھن کی لاگت کی ایڈجسٹمنٹ بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ سہ ماہی بنیادوں پر بھی یہ ایڈجسٹمنٹ کی جاتی ہے جو بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافے کا سبب بنے ہیں۔

کراچی کے علاقے شیرشاہ میں کام کرنے والے منیر احمد بجلی کے بلوں میں اضافے سے پریشان ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے بجلی کے استعمال میں ریلیف پر انھیں یقین نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’یہ وہ لولی پاپ ہے جو ووٹ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

’یہ بہت مشکل ہے کیونکہ جو جماعتیں یہ اعلانات کر رہی ہیں وہ گذشہ سولہ ماہ کی حکومت میں اتحادی تھیں اور ان کے دور میں بجلی کےبلوں میں سے سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔‘

بلدیہ ٹاون کراچی کے رہائشی طارق شیخ نے گھر پر سولر سسٹم لگایا ہوا ہے تاکہ بجلی کے بل میں کمی آ سکے۔

طارق شیخ اسے صرف انتخابی اعلان سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’موجودہ حالات میں بجلی مفت فراہمی تو دور کی بات ہے اگر یہ دو سو سے تین سو یونٹس استعمال کرنے والی صارفین کو ڈیڑھ دو سال پہلے کے ٹیرف پر بجلی فراہم کر سکیں تو یہ بھی بڑی بات ہے۔‘


کیا 300 یونٹس تک بجلی فراہمی ممکن ہے یا صرف یہ ایک سیاسی نعرہ ہے؟
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تین سو یونٹس تک مفت بجلی فراہمی کے اعلانات پر جہاں عام آدمی یقین نہیں کر رہا تو دوسری جانب توانائی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق یہ ممکن ہے اور اسے صرف ایک سیاسی نعرہ ہی سمجھنا چاہیے۔

توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے ریوینیوبلز فرسٹ میں کام کرنے والے ماہر توانائی مصطفیٰ امجد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس اعلان کو حقیقت کے منافی قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کے شعبے کی جو صورتحال ہے اس میں تو ایسے کسی وعدے پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کم بجلی کے یونٹس استعمال کرنے والوں کو دو صورتوں میں مفت بجلی دی جا سکتی ہے کہ حکومت یا تو اپنے وسائل سے بجلی کمپنیوں کو پیسے دے کر لوگوں کو مفت بجلی فراہم کرے یا پھر ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی فراہم کی جا سکے یعنی دوسرے شعبوں کے لیے بجلی کے قیمت زیادہ کر کے تین سو یونٹس والوں کو بجلی فراہم کی جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی ناقابل عمل ہے کہ پاکستان کے بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2700 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ اب ایسی صورت میں اس شعبے کے اندر سکت نہیں کہ لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جا سکے۔

انرجی شعبے کے ماہر راؤ عامر نے بھی مفت بجلی فراہمی کے اعلانات کو غیر حقیقی قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی نہیں دی جا سکتی کیونکہ انڈسٹری پہلے ہی شور مچا رہی ہے کہ ان کا ٹیرف اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ ان کے لیے اس میں کام کرنا مشکل ہو گیا ہے اور انھیں زیادہ لاگت کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں اپنے مصنوعات بیچنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

دوسری جانب حکومت کے اپنے وسائل بھی بہت محدود ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان کو ساڑھے نو ہزار تک ریونیو اکٹھا کرنا ہے، جس میں سے 8500 ارب روپے تو بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔

عامر نے کہا کہ ’اگر ان اعلانات کے مطابق حکومتی خزانے سے رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ سالانہ ساڑھے سات سو ارب روپے بنتا ہے جس کے لیے وسائل نہیں ہیں کہ لوگوں کو مفت بجلی دی جا سکے۔‘


پاکستان میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کتنی ہے؟
سیاسی جماعتوں کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کے انتخابی وعدوں کے بعد یہ دیکھنا ہو گا کہ ملک میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کتنی ہے۔

ملک میں بجلی کی پیداوار کی گنجائش تو چالیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ تاہم بجلی اس سے کم پیدا کی جاتی ہے۔

گرمیوں میں بجلی کی طلب 25 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں اس کی طلب دس ہزار تک گر جاتی ہے۔

توانائی کے شعبے کے ماہر عامر راؤ کے مطابق موجودہ مالی سال میں بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے ہیں اور یہ رقم گھریلو، صنعتی، زرعی اور کمرشل صارفین سے بجلی کے بلوں کی صورت میں اکٹھی کی جائے گی۔

اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین مجموعی صارفین کی تعداد کا دو تہائی ہیں اور حکومت نے اس سال بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب اکٹھا کرنا ہے۔‘

اس کا مطلب ہے کہ تین سو یونٹس تک بجلی مفت کرنے پر دو ہزار ارب روپے دینے پڑیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی مفت دینے کے اعلانات لولی پاپ سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں۔‘

شہباز رانا نے آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے تین سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف کو بھی اگر نظر انداز کر لیں تو یہ ویسے ہی مالی طور پر ممکن نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف تو اس شعبے میں ایک ارب روپے کی سبسڈی دینے کی اجازت نہیں دے گا، دو ہزار ارب روپے کی رقم تو بہت بڑی بات ہے۔‘


Friday, 6 November 2015

بڑے ہیں تو بڑے بن کر دکھائی

No comments :

بڑے ہیں تو بڑے بن کر دکھائی




ایک میری ذاتی رائے ہے‘ یہ ایک مسلمان پنجابی پاکستانی کی رائے ہے اور اس رائے کے مطابق عمران خان کی شادی اور طلاق دونوں نجی معاملات ہیں اور کسی شخص کو ان نجی معاملات پر بات کا حق حاصل نہیں اور میں بطور پاکستانی شہری کبھی اس ”بے شرمی“ اور ”بے اوقاتی“ کا مظاہرہ نہیں کروں گا لیکن میری دوسری رائے ایک پروفیشنل صحافی کی رائے ہے اور صحافت ہر اس خبر کو خبر سمجھتی ہے جس میں کوئی گمنام شخص کتے کو کاٹ لے یا پھر کتا کسی اہم اور نامور شخص پر جھپٹ پڑے‘ ہمارے ملک میں روزانہ دس ہزار شادیاں ہوتی ہیں‘ ملک میں روز ہزار بارہ سو طلاقیں بھی ہوتی ہوں گی لیکن یہ طلاقیں خبر بنتی ہیں اور نہ ہی شادیاں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ تمام طلاقیں عام لوگوں کی طلاقیں اور تمام شادیاں عام لوگوں کی شادیاں ہوتی ہیں لیکن جب کرکٹر شعیب ملک بھارتی ٹینس سٹار ثانیہ مرزا کے ساتھ شادی کرتا ہے تو یہ شادی ہفتوں پاکستان اور بھارت کے میڈیا پر چھائی رہتی ہے‘ آپ لاہور میں ان کے ولیمے کی کوریج نکال کر دیکھ لیجئے‘ اس دن ٹیلی ویژن چینلز نے کوئی دوسری خبر نشر نہیں کی تھی‘ آج بھی صحافی شعیب ملک اور ثانیہ مرزا سے ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں سوال کرتے ہیں‘ یہ سوال کیوں پوچھے جاتے ہیں اور اس شادی کو اتنی کوریج کیوں ملی؟ جواب واضح ہے‘ یہ دونوں ”سیلی بریٹی“ ہیں اور سیلی بریٹیز کا ناخن ٹوٹ جائے یا پھر یہ ناخن لگوا لیں‘ یہ خبر ہوتی ہے اور میڈیا ہمیشہ اپنا یہ حق استعمال کرتا ہے‘ عمران خان ثانیہ مرزا اور شعیب ملک سے بڑے سٹار ہیں چنانچہ ان کی شادی بھی خبر تھی اور طلاق بھی اور یہ خبر کئی برسوں تک خبر رہے گی‘ عمران خان اب اس طلاق کو جتنا چاہیں نجی معاملہ قرار دے لیں مگر ریحام بی بی اسے مرتے دم تک خبر بنائے رکھے گی‘ کیوں؟ کیونکہ ریحام خان عمران خان کی زندگی میں آنے والی باقی خواتین سے مختلف عورت ہے‘ ماضی کی تمام عورتیں گم نام اور رئیس تھیں چنانچہ وہ جس طرح چپ چاپ آئیں‘ اسی طرح خاموشی کے ساتھ واپس چلی گئیں لیکن ریحام تین بچوں کی ماں‘ طلاق یافتہ اور غریب خاتون تھی‘ یہ جرا ¿ت مند بھی ہے‘ اس نے پشتون ہونے کے باوجود پہلے خاوند سے طلاق لی‘ برطانیہ میں کام کر کے بچے پالے اور مردانہ وار زندگی گزاری‘ یہ میڈیا کی طاقت سے بھی واقف ہے‘ اس نے برطانوی میڈیا میں بھی کام کیا اور یہ پاکستانی میڈیا میں بھی اینکر رہی اور سیانے کہتے ہیں‘ ایسی عورت سے لڑنے والے ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں‘ ریحام طلاق کی اس سٹوری کی صحافتی اہمیت سے پوری طرح واقف ہے چنانچہ یہ اب اپنے انٹرویوز بھی لاکھوں پاﺅنڈز میں بیچے گی اور اپنی آپ بیتی‘ اپنی کتاب کے بھی ملینز آف پاﺅنڈز وصول کرے گی‘ یہ غریب خاتون ہے‘ اس کا واحد اثاثہ عمران خان کے ساتھ گزارے ہوئے دس ماہ ہیں اور یہ اب خود کو اس اثاثے سے محروم نہیں ہونے دے گی لہٰذا مستقبل میں بھی بے شمار مواقع آئیں گے جب عمران خان سے بے اوقات لوگ بے شرم سوال پوچھیں گے اور خان صاحب کو ابھی سے ان کی تیاری کر لینی چاہیے۔
عمران خان سے اس معاملے میں دو بڑی غلطیاں ہوئیں‘ یہ اگر اپنی شادی اور طلاق کو نجی معاملہ سمجھتے ہیں تو پھر انہیں اس معاملے کو نجی رکھنا چاہیے تھا‘ آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ میڈیا میں آکر اپنی شادی کا اعلان کریں‘ آپ باقاعدہ فوٹو شوٹ کرائیں اور پھر نکاح سے لے کر لان میں ٹہلنے تک کی تصویریں میڈیا کو جاری کریں‘ آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی اہلیہ کی سیاسی حدودو قیود طے کریں‘ آپ پوری دنیا کو بتائیں‘ ریحام خان پارٹی تقریبات میں جائیں گی نہ پروٹوکول ملے گا اورنہ پارٹی میں کوئی عہدہ دیا جائے گا اور آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ ٹویٹر پر اپنی طلاق کی اناﺅنسمنٹ کریں‘ میڈیا کو تو آپ خود اپنے نجی معاملے میں گھسیٹ کر لائے ہیں اور میڈیا جب کسی کے نجی معاملے میں آ جائے تو پھر یہ بے شرم اور بے اوقات قسم کے سوال بھی پوچھتا ہے اور یہ وہ سوال ہوتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں‘ ایک سٹار کتنا بڑا سٹار اور ایک لیڈر کتنا بڑا لیڈر ہے؟ آپ کو سرونسٹن چرچل کا وہ واقعہ یاد ہوگا جس میں ایک خاتون نے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کہہ دیا تھا‘ میں اگر تمہاری بیوی ہوتی تو میں تمہاری کافی میں زہر ملا دیتی‘ یہ ایک بے اوقات عورت کا بے شرم فقرہ تھا لیکن چرچل نے اس فقرے کو لیڈرشپ کا عظیم کلیہ بنا دیا‘ چرچل نے یہ فقرہ سنا‘ قہقہہ لگایا اور جواب دیا ” میں اگر تمہارا خاوند ہوتا تو میں واقعی کافی کا وہ کپ پی جاتا“ لیڈر اس طرح ”بی ہیو“ کرتے ہیں‘ یہ سوال کرنے والوں کو ”تمہیں شرم آنی چاہیے اور تم نے یہ سوال کر کے اپنی اوقات بتا دی“ جیسے جواب نہیں دیا کرتے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں رپورٹر کو وہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ سوال فضول تھا لیکن عمران خان کے رد عمل نے اس فضول سوال کو عمران خان‘ سیاست اور میڈیا کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ بنا دیا چنانچہ میں اس میں رپورٹر کو کم اور عمران خان کو زیادہ قصوروار سمجھتا ہوں‘ عمران خان کی دوسری بڑی غلطی میڈیا ہینڈلنگ ہے‘ عمران خان چالیس سال سے پبلک فگر ہیں‘ یہ 20 سال سے سیاست میں بھی ہیں لیکن یہ بدقسمتی سے آج تک میڈیا کو نہیں سمجھ سکے‘ میڈیا کبھی کسی کا دوست یا دشمن نہیں ہوتا‘ یہ واقعہ سے واقعہ تک کام کرتا ہے‘ آپ اگر واقعہ تخلیق کرلیں تو پوری دنیا کا میڈیا آپ کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا اور اگر واقعہ نہ ہو تو آپ کا اپنا اخبار‘ اپنا ٹیلی ویژن چینل بھی آپ کی خبر نشر نہیں کرتا‘ آپ 2002ءکو یاد کیجئے‘ اس سال دنیا کے جتنے صحافی پاکستان آئے‘ اتنے ملک کی مجموعی تاریخ میں نہیں آئے‘ اس دور میں اسلام آباد کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاﺅسز میں کمرے اور کرائے پر گاڑیاں نہیں ملتی تھیں‘ کیوں؟ کیونکہ امریکا نے نائین الیون کے بعد افغانستان پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور دنیا کا کوئی میڈیا گروپ اس واقعے سے صرف نظر نہیں کر سکتا تھا چنانچہ ہم نے ان صحافیوں کو بھی اسلام آباد میں دیکھا جن کا نام ہم نے صرف کتابوں میں پڑھا تھا‘ آپ اگر آج ان میں سے کسی صحافی کو پاکستان لانا چاہیں تو شاید آپ ان کے تمام اخراجات برداشت کرنے کے باوجود کامیاب نہ ہو سکیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہاں بین الاقوامی نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آ رہا‘ واقعہ صحافت کا ایندھن ہوتا ہے‘ آپ آج کوئی مثبت واقعہ تخلیق کریں‘ یقین کریں‘ وہ صحافی بھی آپ کی حمایت میں لکھیں اور بولیں گے جن کے بارے میں آپ کا خیال ہے یہ قبر تک آپ سے راضی نہیں ہو سکتے اور آپ آج دہشت گردوں‘ اسرائیل اور شراب کی حمایت میں بیان دیں‘ وہ صحافی بھی آپ کی مخالفت کریں گے جو آپ کو روز فقرے رٹاتے ہیں اور کنٹینر سے لائیو پروگرام کرتے تھے لیکن بدقسمتی سے عمران خان میڈیا کی اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ یہ میڈیا کو دوست اور دشمن دو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ یہ اسے ” آپ میرے ساتھ ہیں یا پھر میرے دشمن ہیں“ سمجھتے ہیں اور یہ وہ غلط فہمی ہے جس کے سبب یہ سیدھے اور عام سے سوال کو بے شرمی‘ بے اوقاتی‘ فاشزم اور لفافہ صحافت سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ آج تک اس حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکے کہ ساکھ صحافی کی عصمت ہوتی ہے اور جینوئن اور سمجھ دار صحافی جان دے دے گا لیکن اپنی عصمت یعنی ساکھ پر آنچ نہیں آنے دے گا اور یہ بھی ذہن میں رکھیں‘ دنیا میں اگر کوئی ناسمجھ‘ لالچی اور بے ایمان شخص صحافی بن جائے تو اس کا کیریئر زیادہ لمبا نہیں ہوتا کیونکہ صحافت جرا ¿ت‘ غیر جانبداری اور ایمانداری کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی جبکہ آپ جب چاہتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں بے ایمان‘ بے شرم اور بے اوقات قرار دے دیتے ہیں‘ آپ کی یہ عادت ثابت کرتی ہے‘ آپ ابھی تک میڈیا کو نہیں سمجھے۔
میڈیا کی بے شمار دلچسپ رویات میں سے ایک روایت ”نوکمنٹس“ بھی ہے‘ آپ کسی صحافی کے کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے تو آپ مسکرا کر نوکمنٹس یا ”میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا“ کہیں تو بات ختم ہو جاتی ہے‘ وہ صحافی دوبارہ وہ سوال نہیں پوچھتا اور اگر پوچھ لے تو صحافتی برادری اس کی ٹھیک ٹھاک چھترول کرتی ہے‘ عمران خان کوتین نومبر کو بھی اپنا یہ استحقاق استعمال کرنا چاہیے تھا اور یہ مستقبل میں بھی صحافیوں کو بے شرمی اور بکاﺅ کی گالی دینے کی بجائے اپنا نوکمنٹس کا حق استعمال کریں‘ یہ ہر قسم کی پریشانی سے بچ جائیں گے‘ میڈیا عمران خان کی پارٹی سے بڑی سپورٹ ہے‘ یہ اس وقت بھی عمران خان کو میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے زیادہ اہمیت دیتا تھا جب خان صاحب کی پارٹی پارٹی نہیں تھی اور یہ اب بھی انہیں ملک کے تمام لیڈروں سے زیادہ امپارٹینس دیتا ہے‘ آپ اس کی توہین کر کے اپنی بڑی سپورٹ سے محروم ہو جائیں گے‘ آپ کے دوست‘ آپ کے ساتھی ”چڑیاں دا چمبا“ ہیں‘ یہ جس طرح آئے ہیں‘ یہ اسی طرح واپس چلے جائیں گے‘ ان میں سے ہر شخص کے پروفائل میں آنے اور جانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے‘ یہ بے شرم اور بے اوقات میڈیا ہے جو کل اس وقت بھی آپ کے ساتھ تھا جب ان میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ نہیں تھا اور یہ کل اس وقت بھی اپنے کیمروں‘ مائیک اور کاپیوں کے ساتھ آپ کے پیچھے کھڑا ہو گا جب ان میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ نہیں ہوگا‘ غرور انسان کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے اور میڈیا پر برسنا غرور کی خوفناک نشانی ہے‘ آپ اگر اس سے بچ گئے تو آپ بچ جائیں گے ورنہ تاریخ مغرور لوگوں کا بہت بڑا قبرستان ہے۔
آپ کبھی کبھار قائداعظم محمد علی جناح کی حیات کا مطالعہ بھی کر لیا کریں‘ قائداعظم نے 19 اپریل 1918ءمیں ایک پارسی خاتون رتن بائی سے شادی کی‘ خاتون نے شادی سے قبل اسلام قبول کیا لیکن اس کے باوجود شادی بہت متنازعہ ہوئی‘ علماءہند نے قائداعظم کو کافراعظم تک کہا‘ قائداعظم جہاں جاتے تھے‘ ہندو‘ انگریز اور کٹڑ مسلمان صحافی ان سے یہ سوال ضرور پوچھتے تھے‘ قائداعظم اور رتن بائی کے درمیان علیحدگی ہو گئی‘ یہ قائداعظم کی زندگی کا پہلا بڑا جذباتی حادثہ تھا‘ دوسرا حادثہ ان کی واحد اولاد دینا کی ان سے علیحدگی تھی‘ لوگوں نے اس علیحدگی پر تبصرہ کیا تھا ”جو اپنا گھر نہیں بنا سکا‘ وہ ملک کیا بنائے گا“ لیکن قائداعظم نے کسی کو بے شرم اور بے اوقات بھی نہیں کہا اور ملک بھی بنایا‘ آپ بھی بے شرم اور بے اوقات کی گالی دیئے بغیر پرانے پاکستان کو نیا پاکستان بنا سکتے ہیں‘ بس آپ کو اپنے اندر قائداعظم جتنا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا‘ آپ بڑے ہیں تو بڑے بن کر بھی دکھائیے‘ چھوٹی باتیں انسان کو چھوٹا کر دیتی ہیں خان صاحب!


Article sorce: javed ch.