Friday, 6 November 2015
بڑے ہیں تو بڑے بن کر دکھائی
بڑے ہیں تو بڑے بن کر دکھائی
ایک میری ذاتی رائے ہے‘ یہ ایک مسلمان پنجابی پاکستانی کی رائے ہے اور اس رائے کے مطابق عمران خان کی شادی اور طلاق دونوں نجی معاملات ہیں اور کسی شخص کو ان نجی معاملات پر بات کا حق حاصل نہیں اور میں بطور پاکستانی شہری کبھی اس ”بے شرمی“ اور ”بے اوقاتی“ کا مظاہرہ نہیں کروں گا لیکن میری دوسری رائے ایک پروفیشنل صحافی کی رائے ہے اور صحافت ہر اس خبر کو خبر سمجھتی ہے جس میں کوئی گمنام شخص کتے کو کاٹ لے یا پھر کتا کسی اہم اور نامور شخص پر جھپٹ پڑے‘ ہمارے ملک میں روزانہ دس ہزار شادیاں ہوتی ہیں‘ ملک میں روز ہزار بارہ سو طلاقیں بھی ہوتی ہوں گی لیکن یہ طلاقیں خبر بنتی ہیں اور نہ ہی شادیاں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ تمام طلاقیں عام لوگوں کی طلاقیں اور تمام شادیاں عام لوگوں کی شادیاں ہوتی ہیں لیکن جب کرکٹر شعیب ملک بھارتی ٹینس سٹار ثانیہ مرزا کے ساتھ شادی کرتا ہے تو یہ شادی ہفتوں پاکستان اور بھارت کے میڈیا پر چھائی رہتی ہے‘ آپ لاہور میں ان کے ولیمے کی کوریج نکال کر دیکھ لیجئے‘ اس دن ٹیلی ویژن چینلز نے کوئی دوسری خبر نشر نہیں کی تھی‘ آج بھی صحافی شعیب ملک اور ثانیہ مرزا سے ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں سوال کرتے ہیں‘ یہ سوال کیوں پوچھے جاتے ہیں اور اس شادی کو اتنی کوریج کیوں ملی؟ جواب واضح ہے‘ یہ دونوں ”سیلی بریٹی“ ہیں اور سیلی بریٹیز کا ناخن ٹوٹ جائے یا پھر یہ ناخن لگوا لیں‘ یہ خبر ہوتی ہے اور میڈیا ہمیشہ اپنا یہ حق استعمال کرتا ہے‘ عمران خان ثانیہ مرزا اور شعیب ملک سے بڑے سٹار ہیں چنانچہ ان کی شادی بھی خبر تھی اور طلاق بھی اور یہ خبر کئی برسوں تک خبر رہے گی‘ عمران خان اب اس طلاق کو جتنا چاہیں نجی معاملہ قرار دے لیں مگر ریحام بی بی اسے مرتے دم تک خبر بنائے رکھے گی‘ کیوں؟ کیونکہ ریحام خان عمران خان کی زندگی میں آنے والی باقی خواتین سے مختلف عورت ہے‘ ماضی کی تمام عورتیں گم نام اور رئیس تھیں چنانچہ وہ جس طرح چپ چاپ آئیں‘ اسی طرح خاموشی کے ساتھ واپس چلی گئیں لیکن ریحام تین بچوں کی ماں‘ طلاق یافتہ اور غریب خاتون تھی‘ یہ جرا ¿ت مند بھی ہے‘ اس نے پشتون ہونے کے باوجود پہلے خاوند سے طلاق لی‘ برطانیہ میں کام کر کے بچے پالے اور مردانہ وار زندگی گزاری‘ یہ میڈیا کی طاقت سے بھی واقف ہے‘ اس نے برطانوی میڈیا میں بھی کام کیا اور یہ پاکستانی میڈیا میں بھی اینکر رہی اور سیانے کہتے ہیں‘ ایسی عورت سے لڑنے والے ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں‘ ریحام طلاق کی اس سٹوری کی صحافتی اہمیت سے پوری طرح واقف ہے چنانچہ یہ اب اپنے انٹرویوز بھی لاکھوں پاﺅنڈز میں بیچے گی اور اپنی آپ بیتی‘ اپنی کتاب کے بھی ملینز آف پاﺅنڈز وصول کرے گی‘ یہ غریب خاتون ہے‘ اس کا واحد اثاثہ عمران خان کے ساتھ گزارے ہوئے دس ماہ ہیں اور یہ اب خود کو اس اثاثے سے محروم نہیں ہونے دے گی لہٰذا مستقبل میں بھی بے شمار مواقع آئیں گے جب عمران خان سے بے اوقات لوگ بے شرم سوال پوچھیں گے اور خان صاحب کو ابھی سے ان کی تیاری کر لینی چاہیے۔
عمران خان سے اس معاملے میں دو بڑی غلطیاں ہوئیں‘ یہ اگر اپنی شادی اور طلاق کو نجی معاملہ سمجھتے ہیں تو پھر انہیں اس معاملے کو نجی رکھنا چاہیے تھا‘ آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ میڈیا میں آکر اپنی شادی کا اعلان کریں‘ آپ باقاعدہ فوٹو شوٹ کرائیں اور پھر نکاح سے لے کر لان میں ٹہلنے تک کی تصویریں میڈیا کو جاری کریں‘ آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی اہلیہ کی سیاسی حدودو قیود طے کریں‘ آپ پوری دنیا کو بتائیں‘ ریحام خان پارٹی تقریبات میں جائیں گی نہ پروٹوکول ملے گا اورنہ پارٹی میں کوئی عہدہ دیا جائے گا اور آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ ٹویٹر پر اپنی طلاق کی اناﺅنسمنٹ کریں‘ میڈیا کو تو آپ خود اپنے نجی معاملے میں گھسیٹ کر لائے ہیں اور میڈیا جب کسی کے نجی معاملے میں آ جائے تو پھر یہ بے شرم اور بے اوقات قسم کے سوال بھی پوچھتا ہے اور یہ وہ سوال ہوتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں‘ ایک سٹار کتنا بڑا سٹار اور ایک لیڈر کتنا بڑا لیڈر ہے؟ آپ کو سرونسٹن چرچل کا وہ واقعہ یاد ہوگا جس میں ایک خاتون نے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کہہ دیا تھا‘ میں اگر تمہاری بیوی ہوتی تو میں تمہاری کافی میں زہر ملا دیتی‘ یہ ایک بے اوقات عورت کا بے شرم فقرہ تھا لیکن چرچل نے اس فقرے کو لیڈرشپ کا عظیم کلیہ بنا دیا‘ چرچل نے یہ فقرہ سنا‘ قہقہہ لگایا اور جواب دیا ” میں اگر تمہارا خاوند ہوتا تو میں واقعی کافی کا وہ کپ پی جاتا“ لیڈر اس طرح ”بی ہیو“ کرتے ہیں‘ یہ سوال کرنے والوں کو ”تمہیں شرم آنی چاہیے اور تم نے یہ سوال کر کے اپنی اوقات بتا دی“ جیسے جواب نہیں دیا کرتے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں رپورٹر کو وہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ سوال فضول تھا لیکن عمران خان کے رد عمل نے اس فضول سوال کو عمران خان‘ سیاست اور میڈیا کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ بنا دیا چنانچہ میں اس میں رپورٹر کو کم اور عمران خان کو زیادہ قصوروار سمجھتا ہوں‘ عمران خان کی دوسری بڑی غلطی میڈیا ہینڈلنگ ہے‘ عمران خان چالیس سال سے پبلک فگر ہیں‘ یہ 20 سال سے سیاست میں بھی ہیں لیکن یہ بدقسمتی سے آج تک میڈیا کو نہیں سمجھ سکے‘ میڈیا کبھی کسی کا دوست یا دشمن نہیں ہوتا‘ یہ واقعہ سے واقعہ تک کام کرتا ہے‘ آپ اگر واقعہ تخلیق کرلیں تو پوری دنیا کا میڈیا آپ کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا اور اگر واقعہ نہ ہو تو آپ کا اپنا اخبار‘ اپنا ٹیلی ویژن چینل بھی آپ کی خبر نشر نہیں کرتا‘ آپ 2002ءکو یاد کیجئے‘ اس سال دنیا کے جتنے صحافی پاکستان آئے‘ اتنے ملک کی مجموعی تاریخ میں نہیں آئے‘ اس دور میں اسلام آباد کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاﺅسز میں کمرے اور کرائے پر گاڑیاں نہیں ملتی تھیں‘ کیوں؟ کیونکہ امریکا نے نائین الیون کے بعد افغانستان پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور دنیا کا کوئی میڈیا گروپ اس واقعے سے صرف نظر نہیں کر سکتا تھا چنانچہ ہم نے ان صحافیوں کو بھی اسلام آباد میں دیکھا جن کا نام ہم نے صرف کتابوں میں پڑھا تھا‘ آپ اگر آج ان میں سے کسی صحافی کو پاکستان لانا چاہیں تو شاید آپ ان کے تمام اخراجات برداشت کرنے کے باوجود کامیاب نہ ہو سکیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہاں بین الاقوامی نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آ رہا‘ واقعہ صحافت کا ایندھن ہوتا ہے‘ آپ آج کوئی مثبت واقعہ تخلیق کریں‘ یقین کریں‘ وہ صحافی بھی آپ کی حمایت میں لکھیں اور بولیں گے جن کے بارے میں آپ کا خیال ہے یہ قبر تک آپ سے راضی نہیں ہو سکتے اور آپ آج دہشت گردوں‘ اسرائیل اور شراب کی حمایت میں بیان دیں‘ وہ صحافی بھی آپ کی مخالفت کریں گے جو آپ کو روز فقرے رٹاتے ہیں اور کنٹینر سے لائیو پروگرام کرتے تھے لیکن بدقسمتی سے عمران خان میڈیا کی اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ یہ میڈیا کو دوست اور دشمن دو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ یہ اسے ” آپ میرے ساتھ ہیں یا پھر میرے دشمن ہیں“ سمجھتے ہیں اور یہ وہ غلط فہمی ہے جس کے سبب یہ سیدھے اور عام سے سوال کو بے شرمی‘ بے اوقاتی‘ فاشزم اور لفافہ صحافت سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ آج تک اس حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکے کہ ساکھ صحافی کی عصمت ہوتی ہے اور جینوئن اور سمجھ دار صحافی جان دے دے گا لیکن اپنی عصمت یعنی ساکھ پر آنچ نہیں آنے دے گا اور یہ بھی ذہن میں رکھیں‘ دنیا میں اگر کوئی ناسمجھ‘ لالچی اور بے ایمان شخص صحافی بن جائے تو اس کا کیریئر زیادہ لمبا نہیں ہوتا کیونکہ صحافت جرا ¿ت‘ غیر جانبداری اور ایمانداری کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی جبکہ آپ جب چاہتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں بے ایمان‘ بے شرم اور بے اوقات قرار دے دیتے ہیں‘ آپ کی یہ عادت ثابت کرتی ہے‘ آپ ابھی تک میڈیا کو نہیں سمجھے۔
میڈیا کی بے شمار دلچسپ رویات میں سے ایک روایت ”نوکمنٹس“ بھی ہے‘ آپ کسی صحافی کے کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے تو آپ مسکرا کر نوکمنٹس یا ”میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا“ کہیں تو بات ختم ہو جاتی ہے‘ وہ صحافی دوبارہ وہ سوال نہیں پوچھتا اور اگر پوچھ لے تو صحافتی برادری اس کی ٹھیک ٹھاک چھترول کرتی ہے‘ عمران خان کوتین نومبر کو بھی اپنا یہ استحقاق استعمال کرنا چاہیے تھا اور یہ مستقبل میں بھی صحافیوں کو بے شرمی اور بکاﺅ کی گالی دینے کی بجائے اپنا نوکمنٹس کا حق استعمال کریں‘ یہ ہر قسم کی پریشانی سے بچ جائیں گے‘ میڈیا عمران خان کی پارٹی سے بڑی سپورٹ ہے‘ یہ اس وقت بھی عمران خان کو میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے زیادہ اہمیت دیتا تھا جب خان صاحب کی پارٹی پارٹی نہیں تھی اور یہ اب بھی انہیں ملک کے تمام لیڈروں سے زیادہ امپارٹینس دیتا ہے‘ آپ اس کی توہین کر کے اپنی بڑی سپورٹ سے محروم ہو جائیں گے‘ آپ کے دوست‘ آپ کے ساتھی ”چڑیاں دا چمبا“ ہیں‘ یہ جس طرح آئے ہیں‘ یہ اسی طرح واپس چلے جائیں گے‘ ان میں سے ہر شخص کے پروفائل میں آنے اور جانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے‘ یہ بے شرم اور بے اوقات میڈیا ہے جو کل اس وقت بھی آپ کے ساتھ تھا جب ان میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ نہیں تھا اور یہ کل اس وقت بھی اپنے کیمروں‘ مائیک اور کاپیوں کے ساتھ آپ کے پیچھے کھڑا ہو گا جب ان میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ نہیں ہوگا‘ غرور انسان کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے اور میڈیا پر برسنا غرور کی خوفناک نشانی ہے‘ آپ اگر اس سے بچ گئے تو آپ بچ جائیں گے ورنہ تاریخ مغرور لوگوں کا بہت بڑا قبرستان ہے۔
آپ کبھی کبھار قائداعظم محمد علی جناح کی حیات کا مطالعہ بھی کر لیا کریں‘ قائداعظم نے 19 اپریل 1918ءمیں ایک پارسی خاتون رتن بائی سے شادی کی‘ خاتون نے شادی سے قبل اسلام قبول کیا لیکن اس کے باوجود شادی بہت متنازعہ ہوئی‘ علماءہند نے قائداعظم کو کافراعظم تک کہا‘ قائداعظم جہاں جاتے تھے‘ ہندو‘ انگریز اور کٹڑ مسلمان صحافی ان سے یہ سوال ضرور پوچھتے تھے‘ قائداعظم اور رتن بائی کے درمیان علیحدگی ہو گئی‘ یہ قائداعظم کی زندگی کا پہلا بڑا جذباتی حادثہ تھا‘ دوسرا حادثہ ان کی واحد اولاد دینا کی ان سے علیحدگی تھی‘ لوگوں نے اس علیحدگی پر تبصرہ کیا تھا ”جو اپنا گھر نہیں بنا سکا‘ وہ ملک کیا بنائے گا“ لیکن قائداعظم نے کسی کو بے شرم اور بے اوقات بھی نہیں کہا اور ملک بھی بنایا‘ آپ بھی بے شرم اور بے اوقات کی گالی دیئے بغیر پرانے پاکستان کو نیا پاکستان بنا سکتے ہیں‘ بس آپ کو اپنے اندر قائداعظم جتنا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا‘ آپ بڑے ہیں تو بڑے بن کر بھی دکھائیے‘ چھوٹی باتیں انسان کو چھوٹا کر دیتی ہیں خان صاحب!
عمران خان سے اس معاملے میں دو بڑی غلطیاں ہوئیں‘ یہ اگر اپنی شادی اور طلاق کو نجی معاملہ سمجھتے ہیں تو پھر انہیں اس معاملے کو نجی رکھنا چاہیے تھا‘ آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ میڈیا میں آکر اپنی شادی کا اعلان کریں‘ آپ باقاعدہ فوٹو شوٹ کرائیں اور پھر نکاح سے لے کر لان میں ٹہلنے تک کی تصویریں میڈیا کو جاری کریں‘ آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی اہلیہ کی سیاسی حدودو قیود طے کریں‘ آپ پوری دنیا کو بتائیں‘ ریحام خان پارٹی تقریبات میں جائیں گی نہ پروٹوکول ملے گا اورنہ پارٹی میں کوئی عہدہ دیا جائے گا اور آپ کو کس نے کہا تھا‘ آپ ٹویٹر پر اپنی طلاق کی اناﺅنسمنٹ کریں‘ میڈیا کو تو آپ خود اپنے نجی معاملے میں گھسیٹ کر لائے ہیں اور میڈیا جب کسی کے نجی معاملے میں آ جائے تو پھر یہ بے شرم اور بے اوقات قسم کے سوال بھی پوچھتا ہے اور یہ وہ سوال ہوتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں‘ ایک سٹار کتنا بڑا سٹار اور ایک لیڈر کتنا بڑا لیڈر ہے؟ آپ کو سرونسٹن چرچل کا وہ واقعہ یاد ہوگا جس میں ایک خاتون نے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کہہ دیا تھا‘ میں اگر تمہاری بیوی ہوتی تو میں تمہاری کافی میں زہر ملا دیتی‘ یہ ایک بے اوقات عورت کا بے شرم فقرہ تھا لیکن چرچل نے اس فقرے کو لیڈرشپ کا عظیم کلیہ بنا دیا‘ چرچل نے یہ فقرہ سنا‘ قہقہہ لگایا اور جواب دیا ” میں اگر تمہارا خاوند ہوتا تو میں واقعی کافی کا وہ کپ پی جاتا“ لیڈر اس طرح ”بی ہیو“ کرتے ہیں‘ یہ سوال کرنے والوں کو ”تمہیں شرم آنی چاہیے اور تم نے یہ سوال کر کے اپنی اوقات بتا دی“ جیسے جواب نہیں دیا کرتے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں رپورٹر کو وہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ سوال فضول تھا لیکن عمران خان کے رد عمل نے اس فضول سوال کو عمران خان‘ سیاست اور میڈیا کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ بنا دیا چنانچہ میں اس میں رپورٹر کو کم اور عمران خان کو زیادہ قصوروار سمجھتا ہوں‘ عمران خان کی دوسری بڑی غلطی میڈیا ہینڈلنگ ہے‘ عمران خان چالیس سال سے پبلک فگر ہیں‘ یہ 20 سال سے سیاست میں بھی ہیں لیکن یہ بدقسمتی سے آج تک میڈیا کو نہیں سمجھ سکے‘ میڈیا کبھی کسی کا دوست یا دشمن نہیں ہوتا‘ یہ واقعہ سے واقعہ تک کام کرتا ہے‘ آپ اگر واقعہ تخلیق کرلیں تو پوری دنیا کا میڈیا آپ کے دروازے پر کھڑا ہو جائے گا اور اگر واقعہ نہ ہو تو آپ کا اپنا اخبار‘ اپنا ٹیلی ویژن چینل بھی آپ کی خبر نشر نہیں کرتا‘ آپ 2002ءکو یاد کیجئے‘ اس سال دنیا کے جتنے صحافی پاکستان آئے‘ اتنے ملک کی مجموعی تاریخ میں نہیں آئے‘ اس دور میں اسلام آباد کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاﺅسز میں کمرے اور کرائے پر گاڑیاں نہیں ملتی تھیں‘ کیوں؟ کیونکہ امریکا نے نائین الیون کے بعد افغانستان پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا اور دنیا کا کوئی میڈیا گروپ اس واقعے سے صرف نظر نہیں کر سکتا تھا چنانچہ ہم نے ان صحافیوں کو بھی اسلام آباد میں دیکھا جن کا نام ہم نے صرف کتابوں میں پڑھا تھا‘ آپ اگر آج ان میں سے کسی صحافی کو پاکستان لانا چاہیں تو شاید آپ ان کے تمام اخراجات برداشت کرنے کے باوجود کامیاب نہ ہو سکیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہاں بین الاقوامی نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آ رہا‘ واقعہ صحافت کا ایندھن ہوتا ہے‘ آپ آج کوئی مثبت واقعہ تخلیق کریں‘ یقین کریں‘ وہ صحافی بھی آپ کی حمایت میں لکھیں اور بولیں گے جن کے بارے میں آپ کا خیال ہے یہ قبر تک آپ سے راضی نہیں ہو سکتے اور آپ آج دہشت گردوں‘ اسرائیل اور شراب کی حمایت میں بیان دیں‘ وہ صحافی بھی آپ کی مخالفت کریں گے جو آپ کو روز فقرے رٹاتے ہیں اور کنٹینر سے لائیو پروگرام کرتے تھے لیکن بدقسمتی سے عمران خان میڈیا کی اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ یہ میڈیا کو دوست اور دشمن دو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ یہ اسے ” آپ میرے ساتھ ہیں یا پھر میرے دشمن ہیں“ سمجھتے ہیں اور یہ وہ غلط فہمی ہے جس کے سبب یہ سیدھے اور عام سے سوال کو بے شرمی‘ بے اوقاتی‘ فاشزم اور لفافہ صحافت سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ آج تک اس حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکے کہ ساکھ صحافی کی عصمت ہوتی ہے اور جینوئن اور سمجھ دار صحافی جان دے دے گا لیکن اپنی عصمت یعنی ساکھ پر آنچ نہیں آنے دے گا اور یہ بھی ذہن میں رکھیں‘ دنیا میں اگر کوئی ناسمجھ‘ لالچی اور بے ایمان شخص صحافی بن جائے تو اس کا کیریئر زیادہ لمبا نہیں ہوتا کیونکہ صحافت جرا ¿ت‘ غیر جانبداری اور ایمانداری کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی جبکہ آپ جب چاہتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں بے ایمان‘ بے شرم اور بے اوقات قرار دے دیتے ہیں‘ آپ کی یہ عادت ثابت کرتی ہے‘ آپ ابھی تک میڈیا کو نہیں سمجھے۔
میڈیا کی بے شمار دلچسپ رویات میں سے ایک روایت ”نوکمنٹس“ بھی ہے‘ آپ کسی صحافی کے کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے تو آپ مسکرا کر نوکمنٹس یا ”میں اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا“ کہیں تو بات ختم ہو جاتی ہے‘ وہ صحافی دوبارہ وہ سوال نہیں پوچھتا اور اگر پوچھ لے تو صحافتی برادری اس کی ٹھیک ٹھاک چھترول کرتی ہے‘ عمران خان کوتین نومبر کو بھی اپنا یہ استحقاق استعمال کرنا چاہیے تھا اور یہ مستقبل میں بھی صحافیوں کو بے شرمی اور بکاﺅ کی گالی دینے کی بجائے اپنا نوکمنٹس کا حق استعمال کریں‘ یہ ہر قسم کی پریشانی سے بچ جائیں گے‘ میڈیا عمران خان کی پارٹی سے بڑی سپورٹ ہے‘ یہ اس وقت بھی عمران خان کو میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے زیادہ اہمیت دیتا تھا جب خان صاحب کی پارٹی پارٹی نہیں تھی اور یہ اب بھی انہیں ملک کے تمام لیڈروں سے زیادہ امپارٹینس دیتا ہے‘ آپ اس کی توہین کر کے اپنی بڑی سپورٹ سے محروم ہو جائیں گے‘ آپ کے دوست‘ آپ کے ساتھی ”چڑیاں دا چمبا“ ہیں‘ یہ جس طرح آئے ہیں‘ یہ اسی طرح واپس چلے جائیں گے‘ ان میں سے ہر شخص کے پروفائل میں آنے اور جانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے‘ یہ بے شرم اور بے اوقات میڈیا ہے جو کل اس وقت بھی آپ کے ساتھ تھا جب ان میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ نہیں تھا اور یہ کل اس وقت بھی اپنے کیمروں‘ مائیک اور کاپیوں کے ساتھ آپ کے پیچھے کھڑا ہو گا جب ان میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ نہیں ہوگا‘ غرور انسان کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے اور میڈیا پر برسنا غرور کی خوفناک نشانی ہے‘ آپ اگر اس سے بچ گئے تو آپ بچ جائیں گے ورنہ تاریخ مغرور لوگوں کا بہت بڑا قبرستان ہے۔
آپ کبھی کبھار قائداعظم محمد علی جناح کی حیات کا مطالعہ بھی کر لیا کریں‘ قائداعظم نے 19 اپریل 1918ءمیں ایک پارسی خاتون رتن بائی سے شادی کی‘ خاتون نے شادی سے قبل اسلام قبول کیا لیکن اس کے باوجود شادی بہت متنازعہ ہوئی‘ علماءہند نے قائداعظم کو کافراعظم تک کہا‘ قائداعظم جہاں جاتے تھے‘ ہندو‘ انگریز اور کٹڑ مسلمان صحافی ان سے یہ سوال ضرور پوچھتے تھے‘ قائداعظم اور رتن بائی کے درمیان علیحدگی ہو گئی‘ یہ قائداعظم کی زندگی کا پہلا بڑا جذباتی حادثہ تھا‘ دوسرا حادثہ ان کی واحد اولاد دینا کی ان سے علیحدگی تھی‘ لوگوں نے اس علیحدگی پر تبصرہ کیا تھا ”جو اپنا گھر نہیں بنا سکا‘ وہ ملک کیا بنائے گا“ لیکن قائداعظم نے کسی کو بے شرم اور بے اوقات بھی نہیں کہا اور ملک بھی بنایا‘ آپ بھی بے شرم اور بے اوقات کی گالی دیئے بغیر پرانے پاکستان کو نیا پاکستان بنا سکتے ہیں‘ بس آپ کو اپنے اندر قائداعظم جتنا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا‘ آپ بڑے ہیں تو بڑے بن کر بھی دکھائیے‘ چھوٹی باتیں انسان کو چھوٹا کر دیتی ہیں خان صاحب!
Article sorce: javed ch.
Subscribe to:
Post Comments
(
Atom
)
No comments :
Post a Comment