Monday, 20 May 2024
’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘
حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں میاں نواز شریف کے سوا کوئی تین بار وزیرِ اعظم نہیں بنا۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا وزیرِ اعظم نہیں گزرا جسے دو بار (2000 اور 2019 میں) ایسی سزا ہوئی ہو جس میں ضمانت تو کیا پیرول پر رہائی بھی عام آدمی کے لیے ناممکن ہے۔
مگر دونوں بار میاں صاحب جیل کی سلاخوں کے بیچ میں سے ایسے نکلے جیسے 20ویں صدی کا عظیم شعبدہ باز ہوڈینی ہر بار پانی کے گہرے ٹینک میں زنجیر بکف قید ہونے کے باوجود باہر نکل آتا تھا۔
میاں صاحب کے خلاف جتنے بھی مقدمات بنائے گئے اور ان مقدمات میں جتنی بھی سزائیں اور جرمانے سنائے گئے وہ ان سب سے ایسے بری ہوئے کہ خود بھی ششدر رہ گئے۔
میاں صاحب اتنے خوش قسمت ہیں کہ اس وقت ان کا بدترین سیاسی دشمن سیاست سے نااہل قرار پا کے جیل میں ہے۔ بیسیوں مقدمات اس دشمن سے آکٹوپس کی طرح لپٹے ہوئے ہیں۔
خود میاں صاحب قومی اسمبلی کے ’چنتخب‘ رکن ہیں۔ ان کے برادرِ خورد دوسری بار وزیرِ اعظم مقرر ہوئے ہیں۔ ان کے سمدھی نائب وزیرِ اعظم، وزیرِ خارجہ اور غیر رسمی وزیرِ خزانہ یعنی تھری ان ون ہیں۔
ان کی صاحبزادی سب سے بڑے صوبے کی وزیرِ اعلٰی ہیں اور خود میاں صاحب برسراقتدار جماعت کے سپریم لیڈر ہیں۔
پھر بھی جو مل گیا اس پر خوش، مطمئن اور قانع ہونے کے بجائے وہ پہلے سے زیادہ افسردہ ہیں۔
ان کے اس غم کا مداوا دنیا کی کوئی راحت نہیں کر سکتی کہ ’مجھے تینوں بار کیوں نکالا؟‘، ’میرا قصور کیا تھا؟‘
’مجھے نکالا تو قوم مجھے نکالنے والوں کے خلاف باہر کیوں نہیں نکلی؟‘
’کیا میں نے موٹرویز نہیں بنائے؟ کیا ایٹمی دھماکے نہیں کیے۔ کیا میں نے اقتصادی ترقی کے بڑے بڑے منصوبے شروع نہیں کیے؟ تو پھر کیوں نکالا؟
’ان جرنیلوں اور ججوں کو کب کٹہرے میں کھڑا کیا جاوے گا؟ جنھوں نے مجھے نکالا؟ کیوں نکالا؟ کیوں نکالا؟ آخر کیوں نکالا؟‘
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
میاں صاحب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اکثر انسان حال سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے ماضی کی کٹیا میں رہنا پسند کرتے ہیں اور خود پر ترس کھاتے رہتے ہیں۔
رفتہ رفتہ یادداشت بھی منتخب ہو جاتی ہے۔ زندگی میں جہاں جہاں جو جو سمجھوتے کیے یا جس جس کو سیڑھی سے گرایا اور جس جس کو سیڑھی بنا کے اوپر آئے اور جنھوں نے بار بار سیڑھی کھینچی انہی کے طفیل قانونی و سیاسی و انتخابی مشکلات سے بھی نکلے۔
کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ بس ایک ’میں اور مجھے‘ ذہن میں پھانس کی طرح اٹک جاتی ہے اور اس پھانس کی ٹیس کبھی سکون سے نہیں رہنے دیتی۔
آپ کو کسی بھی وزیرِ اعظم کی دو چار قہقہہ بار تصاویر ضرور انٹرنیٹ پر مل جائیں گی۔ میاں صاحب کی کوئی کھلکھلاتی تصویر نکال کے دکھائیں تو جانیں۔ آپ کے لبوں پر کبھی کبھی جو تبسم بھی آتا ہے اس میں بھی بے ساختگی بمشکل جگہ بنا پاتی ہے۔
جب میاں صاحب طاقت کا منبع تھے تب بھی نہ ہی اپنا نامزد کردہ کوئی اچھا سپاہ سالار ملا اور نہ ہی کوئی اچھا جج۔ اور آج جب وہ سیاسی حاشیہ بن چکے ہیں تب بھی وہ 1993، 1999، 2015 اور 2018 میں خمیہ زن ہیں مگر آٹھ فروری 2024 کے یومِ بحالیِ شریف خاندان کا ذکر نہیں کرتے۔
حیدر آباد دکن کے آخری تاجدار میر عثمان علی خان جب کم سن تھے تو ان کے والد میر محبوب علی خان روزانہ ایک طلائی سکہ دیا کرتے تھے۔ایک دن میر محبوب علی خان دربار سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ صاحب زادے پریشانی کے عالم میں باغ میں کچھ تلاش کر رہے ہیں اور پسینے پسینے ہو رہے ہیں۔پتہ چلا کہ ان کا طلائی سکہ کہیں کھو گیا ہے۔ والد نے میر عثمان علی خان کو کہا کہ صاحب زادے آپ کیوں خود کو تھکا رہے ہیں۔ یہ لیجیے نیا سکہ اور اسے سنبھال کے رکھیے۔
سہہ پہر کو قیلولے کے بعد جب میر محبوب علی خان دوبارہ باغ سے گذرے تو دیکھا کہ صاحبزادے وہیں موجود ہیں اور کھویا ہوا سکہ بدستور ڈھونڈ رہے ہیں۔